کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپ کتنے دن تک اپنے گھر والوں سے دور رہ سکتے ہیں، ایک دن؟ سو دن؟ ایک ہزار دن؟ آپ کتنی عیدیں اپنے گھروالوں، اپنے بیو ی بچوں کے بغیرکر سکتے ہیں؟ ایک، دو، تین، پانچ یا اس سے بھی زیادہ؟ ایک لمحے کو تصور کیجئے کہ آپ کو قید میں ڈال دیا جاتا ہے اور ہزار ہا دن بیت جاتے ہیں، آپ کو باہر کی دنیا کی کچھ خبر نہیں، اپنے گھروالوں سے آپ کا کوئی رابطہ نہیں، اپنے بچوں کے بارے میں آپ کو کچھ علم نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ آپ کس جرم میں یہ سزا کاٹ رہے ہیں تو ذرا سوچئیے کہ آپ پر کیا بیتے گی؟ سوچنا بھی دشوار لگ رہا ہے؟ عافیہ صدیقی یہ سب پندرہ سالوں سے سے بھگت رہی ہیں۔
آج یعنی 30 مارچ 2018ء کو ٹھیک 5479 دن ہو گئے ہیں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اپنے گھر والوں سے بچھڑے ہوئے۔ 30 عیدیں انہوں نے اپنے خاندان، اپنی والدہ، بہن، بھائی اور بچوں سے دور منائیں (بلکہ منائی تو خوشی جاتی ہے، انہوں نے تو عیدیں بھی کاٹی ہیں) تا حال کوئی امید نظر نہیں آ رہی کہ ڈاکٹر عافیہ اپنے گھر والوں سے آن ملیں۔
آج سے ٹھیک 15 سال پہلے‘ 30 مارچ 2003ء کو کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ جہاز سے لا پتا ہو گئی تھیں اور پھر اس کے پانچ سال بعد انہیں افغانستان کے علاقے غزنی میں دیکھا گیا جہاں سے انہیں امریکا منتقل کر دیا گیا۔ وہاں ان پر دہشت گردی کاالزام عائد کر کے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ ڈاکٹر عافیہ پر بھونڈا سا الزام یہ لگایا گیا کہ انہوں نے افغانستان میں اپنی ’’گرفتاری‘‘ سے اگلے روز تفتیش کے دوران امریکی فوجیوں سے رائفل چھین کر فائرنگ شروع کر دی، مگر آج تک اس بات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا جا سکا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کہاں سے، کیسے اور کس جرم کے تحت گرفتار کیا گیا۔ بالفرض اگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر بندوق چھین کر فائرنگ کرنے کا الزام بھی تھا توان کے بچوں کو کس جرم کے تحت “اغوا” کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی اس کیس میں بہت سے سوال ایسے ہیں جو ابھی تک جواب طلب ہیں۔
سب سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ آپ 2003ء سے 2008ء کے درمیانی عرصے میں کہاں رہیں؟ بلا شبہ یہ اس کیس کا سب سے پراسرار پہلو ہے جس کا شاید ہی کسی کو درست علم ہو مگراس سوال کا سب سے بہتر جواب یقیناً سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف ہی دے سکتے ہیں جن کے دورِ حکومت میں عافیہ صدیقی کو ’اغوا‘ کیا گیا تھا اور یہ کوئی الزام نہیں ہے بلکہ اس وقت کے وزیر خارجہ “خورشید محمود قصوری” خود 23 جنوری 2012ء کو اپنے ایک ’ٹویٹ‘ میں نہ صرف ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کرنے کا اعتراف کر چکے ہیں بلکہ اس امر پرقوم سے معافی بھی مانگ چکے ہیں۔
ایک کہانی اس حوالے سے یہ بھی سنائی جاتی ہے کہ امریکی ادارے ایم آئی ٹی کی فارغ التحصیل ڈاکٹر عافیہ نے القاعدہ میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور یہ خود ’’جذبہ جہاد‘‘ کے تحت افغانستان گئیں تھیں۔ اس کہانی کو گھڑنے والوں نے شاید عجلت کا مظاہرہ کیا کیونکہ کس قدر مضحکہ خیز لگے اگر یہ کہا جائے کہ جذبہ جہاد میں سرشا ر ڈاکٹر عافیہ کو جہاد کا خیال اس وقت ستایا جب تین بچے ان کے ساتھ تھے اور وہ ایک جہاز میں سوار ہو چکی تھیں۔
جہاں تک بات امریکی مؤقف کی بات ہے تو تضادات کا مجموعہ ’’چارج شیٹ‘‘ خود چیخ چیخ کر ڈاکٹر عافیہ پر بنائے گئے جھوٹے کیس کی غمازی کرتی ہے بلکہ اگر تفصیلی جائزہ لیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ پرجس رائفل کو اٹھا کر دو امریکی فوجیوں کو زخمی کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، وہ رائفل ان کے اس وقت کے کل وزن کے مساوی ہے۔ پھر یہ باتیں تو اس وقت کی جائیں گی جب اس جھوٹے کیس کے حوالے سے کوئی ابہام ہو۔ سارے ابہام تو اسی وقت دور ہو جاتے ہیں جب وزیر خارجہ خود اعتراف کرلیتا ہے کہ عافیہ صدیقی کو امریکا کے باقاعدہ حوالے کیا گیا تھا، تاہم ان کا جرم تو یہاں بھی نہیں بتایا گیا۔ اب اگر عافیہ صدیقی 2008ء سے پہلے ’بگرام ‘ میں نہیں تھیں تو کہاں تھیں یا انہیں کہاں رکھا گیا تھا یہ صرف حقوق انسانی کا سب سے بڑا علمبردار امریکا ہی بتا سکتا ہے۔ دنیا میں ایسے بہت سے پراسرار کیس ہیں جن کے حقائق کبھی منظر عام پر نہیں آئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس بھی شاید انہی میں شمار ہو۔
ڈاکٹر عافیہ کو “دختر پاکستان” بھی کہا جاتا ہے مگر کچھ لوگوں کیلئے یہ خطاب دکھتی رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ خطاب کسی مخصوص طبقے نے خود نہیں گھڑا بلکہ اسے زبانِ خلق، نقارہ خدا سمجھیں کہ باقی دنیا بھی ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان کی بیٹی کی حیثیت سے ہی جانتی ہے۔ اگست 2012ء میں سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک نے ہائی کورٹ بار میں وکلاء سے خطاب کے دوران بھی عافیہ کیلئے یہی خطاب استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پہلے میں پاکستان کے ایک لیڈر کو بچانے آیا تھا اب میں پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بچانے آیا ہوں‘‘۔
اگرچہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عافیہ صدیقی کیس کو اجاگر کرنے میں ایک اہم کردار برطانوی صحافی ’’ایوون ریڈلی‘‘ اور تحریک انصاف کے چئیر مین عمران خان کا بھی ہے جنہوں نے سب سے پہلے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں’’بگرام جیل‘‘ میں قید واحد خاتون قیدی کیلئے آواز بلند کی تھی جسے کسی قسم کی کوئی تخصیصی سہولیات میسر نہ تھیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بعد میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ ڈاکٹر عافیہ کو کبھی بگرام جیل میں قید نہیں کیا گیا بلکہ قیدی نمبر 650 کوئی اورہی خاتون تھی مگر یہ نمبر عافیہ کے ساتھ ہی منسوب ہو گیا اور آج بھی ڈاکٹر عافیہ کو قیدی نمبر 650 کے نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔
عجب اتفاق کہ آج سیاستدانوں میں اگر کوئی ڈاکٹر عافیہ کا تھوڑا بہت ذکر کرتا ہے تو وہ عمران خان ہی ہیں اور سوئے اتفاق کہ اس کیس کے دو اہم مہرے ان کے دائیں بائیں کھڑے ہوتے ہیں۔ اول خورشید محمود قصوری، جن کی دورمیں عافیہ صدیقی کو پاکستان سے ’اغوا ‘ کیا گیا تھا اور دوسرے شاہ محمود قریشی، جن کے دورمیں ڈاکٹر عافیہ کو 86 سال کی قید سنائی گئی تھی اور اس سزا میں سب سے بڑی نا اہلی پاکستانی وزارتِ خارجہ کی ہی تھی جس کی غفلت، بے اعتنائی اور بے توجہی کے سبب معاملہ اس نہج تک پہنچا۔ ڈاکٹر عافیہ کی سابق وکیل اور’انٹرنیشنل جسٹس نیٹ ورک‘ کی سربراہ ’ٹینا فوسٹر‘ نے بھی حکومت پاکستان کو اس سزا کا براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا تھا کیونکہ ان کی دانست میں کیس کی درست طریقے سے پیروی ہی نہیں کی گئی۔ ان کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے فراہم کئے گئے وکیلوں نے بھاری فیسیں لینے کے باوجود بھی کیس کی درست طریقے سے پیروی نہیں کی اور عدالت کی بھی صحیح رہنمائی نہیں کی۔ ٹھیک انہی دنوں عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بھی بار باردفتر خارجہ کے سرد رویے کی شکایت کی اور اس وقت وزیرخارجہ کی کرسی پر تحریک انصاف کے موجودہ وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی صاحب ہی براجمان تھے۔
ایک طرف اس کیس میں حکومت پاکستان کی نا اہلی واضح ہے، دوسری طرف امریکی عدالت نے بھی انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے۔ پوری دنیا میں اس سزا کے حوالے سے ایک شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ بشمول لارڈ نذیر احمد برطانیہ کے 4اراکین اسمبلی نے اس حوالے سے امریکی صدر کو باقاعدہ ایک خط بھی لکھا تھا جس میں اس سزا کو ’انصاف کی موت‘ قرار دیتے ہوئے یہ اعتراض بھی کیا تھا کہ سزاکیلئے سائنسی اور فرانزک ثبوت ناکافی ہیں۔ اس کے علاوہ سابق امریکی صدارتی امیدوار اور سینیٹر’ مائیک گریول‘ نے بھی عافیہ صدیقی کی سزا کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ عافیہ صدیقی سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے اور یہ کہ عافیہ صدیقی کو سزا سنا کر ایک جرم کیا گیا جس کا ارتکاب امریکی سر زمین پر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گریول نے بھی الزام حکومت پاکستان کے سر پر ہی دھرا تھا کہ حکومت نے ایک بار بھی امریکا سے عافیہ صدیقی کو با ضابطہ طور پر نہیں مانگا۔
26 اگست 2012ء کو ’رمزے کلارک ‘ نے عافیہ صدیقی کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور پھر ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عافیہ صدیقی بے گناہ ہیں اور انہیں بین الاقوامی سیاست کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ عافیہ صدیقی کیس میں جتنی ناانصافی، ظلم و زیادتی ہوئی ہے اتنی انہوں نے اپنے پورے کیرئیر میں نہیں دیکھی اور وہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے ہر ممکن مدد کریں گے۔
اب حالت یہ ہے کہ 49 سالہ ڈاکٹر عافیہ امریکی جیل میں اپنے ناکردہ گناہوں کی 86 سالہ قید کاٹنے پر مجبور ہیں مگر پھر بھی کچھ اقدامات ہیں جن کی بدولت انہیں پاکستان لایا جا سکتا ہے۔ حکومت امریکا سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکا سے طلب کر سکتی ہے لیکن اس صورت میں انہیں پاکستان میں اپنی سزا پوری کرنا ہو گی کیونکہ پاکستان کی کسی عدالت کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ امریکی عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کو معطل یا کالعدم قرار دے سکے لیکن پھر بھی اس سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی نہ صرف وطن واپس آ سکتی ہیں جہاں انہیں بہتر طبی سہولیات میسر ہو سکتی ہیں بلکہ انہیں گھر میں نظر بند قرار دے کر ان کے گھر کو بھی سب جیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ کے ذریعے امریکی صدر سے ’’رحم‘‘ کی اپیل کر کے سزا معاف کروائی جا سکتی ہے کیونکہ امریکی صدر کے پاس کسی بھی امریکی عدالت کی سزا معطل کرنے اور قیدی کو معاف کرنے کا اختیار ہوتا ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرے اور سفارتی تعلقات کو دانشمندانہ انداز میں استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کروانے کیلئے تمام وسائل انتہائی محتاط انداز میں بروئے کار لائے۔
اس حوالے سے ایک موقع گزشتہ سال صدر براک اوباما کی رخصتی کے وقت ضائع کر دیا گیا۔ اس وقت تمام حلقوں کی جانب سے امید کی جا رہی تھی کہ اگر پاکستانی حکومت امریکا کو باضابطہ خط لکھے تو صدر اوباما جاتے جاتے عافیہ کی سزا معاف کر دیں گے مگر (اب نااہل) وزیرِاعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کے پاس اتنا وقت بھی نہ تھا۔ ( یہ کام وزارتِ خارجہ کا تھا اوروزیر خارجہ کے منصب پر بھی آنجناب براجمان تھے)
آج پورے 15 سال ہو گئے ہیں مگر ڈاکٹر عافیہ کا کیس ابھی تک ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہو سکا۔ الیکشن کے دنوں میں عمران خان، نواز شریف اور رحمٰن ملک سمیت ساری اعلیٰ سیاسی قیادت نے نہ صرف ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور آمنہ مسعود جنجوعہ کی سربراہی میں “مسنگ پرسنز” کے اہل خانہ سے ملاقات کی تھی بلکہ یقین دلایا تھا کہ اگر وہ برسرِ اقتدار آئے تو اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹائیں گے مگر وہی ہوا جو ہمیشہ الیکشنز کے بعد ہوتا ہے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد میاں صاحب کے نو رتن کوئی اور لوگ تھے اور یہ معاملہ ان کی ترجیحات سے ہٹ چکا تھا۔ اب بھی کچھ حکومتی اراکین اسمبلی محض عوام کی دلجوئی کیلئے کبھی کبھار سرسری باتوں میں ڈاکٹر عافیہ کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں تا کہ یہ علم ہوتا رہے کہ حکومت نے انہیں فراموش نہیں کیا مگر عملاً جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ حتیٰ کہ ڈاکٹر عافیہ کی اپیل یکدم واپس لے لی گئی اور اس معاملے پر سب نے ہونٹ سیئے رکھے۔
حکومت بلکہ حکومتوں نے اس معاملے میں جو کیا سو کیا‘ بحیثیت پاکستانی مجھے بھی ایک احساسِ جرم گھیرے رکھتا ہے کہ میں نے اس معاملے میں کیا کیا؟ میں نے ڈاکٹر عافیہ کو انصاف دلانے کیلئے کیا اقدامات کیے؟ میں نے اس ظلم کے خلاف کتنی آواز بلند کی؟ میں نے واقعی کبھی ایک لمحے کو بھی سوچا کہ اگر مجھے ایسی کسی قید میں ڈال دیا جائے اور ہزار ہا دن بیت جائیں جہاں مجھے باہر کی دنیا کی کچھ خبر نہ ہو، میرے گھروالوں سے میراکوئی رابطہ نہ ہو، اپنے اہل و عیال کے بارے میں مجھے کچھ علم نہ ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں یہ بھی نہ جانتا ہوں کہ مجھے کس جرم میں یہ سزا ملی تو مجھ پر کیا بیتے گی؟