اسلام آباد ؛سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستان پر امریکہ کا
بہت زیادہ دباﺅ ہوگا اس لیے تحریک انصاف کے اکثر لوگ وزیر خارجہ بننے سے گریزاں رہے۔ شاہ محمود قریشی نرم مزاج آدمی ہیں اس لیے انہوں نے خود وزیر خارجہ بننے سے انکار کیا اور سپیکر کا عہدہ مانگا۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ عمران خان شاہ محمود قریشی کو وزیر خارجہ بنانا چاہتے تھے لیکن شاہ محمود قریشی نے یہ تجویز پیش کی کہ انہیں سپیکر بنادیا جائے، قومی اسمبلی کا سپیکر بننے کی خواہش کا اظہار انہوں نے خود کیا۔انہوں نے کہا کہ نئی حکومت کیلئے انرجی کرائسز، پانی کا بحران، قرضوں کا بوجھ، آئی ایم کا پریشر ہوگا، خارجہ پالیسی میں امریکہ کی جانب سے کافی پریشر ہوگا۔ عمران خان کی خارجہ پالیسی کا سب کو پتا ہے ، ان کا ووٹ بینک اس لیے بڑھا کیونکہ انہوں نے امریکہ کی مخالفت کی۔ اگر عمران خان وزیر اعظم بنتے ہیں تو انہیں عالمی طاقتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ بننے سے گریز کر رہے تھے کیونکہ وہ نرم مزاج آدمی ہیں۔ پہلے وہ ہیلری کلنٹن سے دوستانہ تعلقات بنا کر چل رہے تھے لیکن اب وزیر خارجہ کو پاکستان کے مفاد
کے خلاف امریکی مطالبات پر سٹینڈ لینا ہوگا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعلی پنجاب بننا چاہتے ہیں جس پر بتایا گیا کہ اس مرحلے میں تین ماہ کا وقت لگ سکتا ہے جوساز گار نہیں اس لئے شاہ محمود وزیراعلی پنجاب نہ بنیں۔جس پر شاہ محمود کا کہنا تھا کہ پھر انہیں قومی اسمبلی کا سپیکر بنا دیا جائے ،اور بالاخر عمران خان کو ان کی بات ماننا پڑی۔سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ عمران خان کا مقابلہ لوگوں کو ان سے وابستہ توقعات سے ہوگا اور اگر پہلے 100 دن کے دوران عمران خان نے خود سے وابستہ توقعات 50 فیصد بھی پوری کردیں تو یہ ان کی بہترین پرفارمنس ہوگی۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ سپیکر کا عہدہ باوقار ہے اور اس کیلئے باوقار بندہ ہی ہونا چاہیے ، شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور سلجھی ہوئی شخصیت ہیں وہ ہاﺅس کو بہتر طور پر چلائیں گے۔ عمران اسماعیل سندھ میں پی ٹی آئی کا چہرہ ہیں ان کا حق ہے کہ انہیں گورنر بنایا جائے عمران خان کا بھی حق ہے کہ وہ وزیر اعظم بنیں۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ عمران خان سے لوگوں کی توقعات بہت زیادہ ہیں، پہلے 100 دن کے دوران عمران خان کا مقابلہ انہی توقعات سے ہے، اگر وہ 50 فیصد بھی توقعات پوری کردیتے ہیں تو یہ بہترین پرفارمنس ہوگی اور اگر وہ چند فیصد ہی کام کرپائے تو یہ ان کی ناکامی ہوگی۔