اسلام آباد(ویب ڈیسک) محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کردہ تفصیلی تجزیے میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ روز آنے والا زلزلہ جہلم تھرسٹ فالٹ میں آیا ہے جبکہ زلزلے کے مرکز سے قریب ترین فالٹ دِل جابہ تھرسٹ فالٹ اور روات فالٹ ہیں جو کہ ایک دوسرے کے متوازی ہیں ۔سائنسی ریسرچ کے بعد حقائق کے انکشافات سے پہلے زلزلے کے بارے میں عجیب وغریب روایات مروج تھیں ، مثلاً عیسائی پادریوں کا خیال تھا کہ زلزلے خدا کے باغی اور گنہگار انسانوں کے لئے اجتماعی سزا اور تنبیہ ہوتے ہیں بعض قدیم اقوام سمجھتی تھیں مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیوہیکل درندے جو زمین کے اندر رہتے ہیں، زلزلے پیدا کرتے ہیں ۔قدیم جاپانیوں کا عقیدہ تھا کہ ایک طویلِ القامت چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اُٹھائے ہوئے ہے اور اس کے ہلنے سے زلزلے آتے ہیں۔کچھ ایسا ہی عقیدہ امریکی ریڈ انڈینز کا بھی تھا کہ زمین ایک بہت بڑے کچھوے کی پیٹھ پر دھری ہے اور کچھوے کے حرکت کرنے سے زلزلے آتے ہیں ۔ سائیبیریا کے قدیم باشندے زلزلے کی ذمّہ داری ایک قوی البحثّہ برفانی کتے کے سر تھوپتے ہیں، جو ان کے بقول جب اپنے بالوں سے برف جھاڑنے کے لئے جسم کو جھٹکے دیتا ہے تو زمین لرزنے لگتی ہے ۔ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب وہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔ قدیم یونانی فلسفی اور ریاضی داں فیثا غورث کا خیال تھا کہ جب زمین کے اندر مُردے آپس میں لڑتے ہیں تو زلزلے آتے ہیں۔ اس کے برعکس ارسطو کی توجیہہ کسی حد تک سائنسی معلوم ہوتی ہے، وہ کہتا ہے کہ جب زمین کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں۔افلاطون کا نظریہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا کہ زیرِ زمین تیز و تند ہوائیں زلزلوں کو جنم دیتی ہیں۔
تقریباً 70 سال پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین ٹھنڈی ہورہی ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اس کا غلاف کہیں کہیں چٹخ جاتا ہے، جس سے زلزلے آتے ہیں۔ کچھ دوسرے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ زمین کے اندرونی حصّے میں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس بے پناہ حرارت کی وجہ سے زمین غبارے کی طرح پھیلتی ہے۔لیکن آج کا سب سے مقبول نظریہ’’پلیٹ ٹیکٹونکس‘‘کا ہے جس کی معقولیت کو دنیا بھر کے جیولوجی اور سیسمولوجی کے ماہرین نے تسلیم کرلیا ہے۔(سید شہزاد ناصر:اردومحفل)دنیا کی تاریخ حادثات اور قدرتی آفات سے بھری پُری ہے، بعض حادثات وآفات نے تو انسانی آبادی کے بڑے حصے کو چشم زدن میں صفحہٴ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا، آفات کئی طرح کی ہوتی ہیں،مثلا سیلاب، طوفان، وبائی امراض؛لیکن انسانی زندگی پر زلزلے کے اثرات دیگر قدرتی آفات کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک اور دیر پا ہوتے ہیں۔زلزلوں کی ہلاکت خیزی جنگوں اور وبائی امراض سے کہیں زیادہ ہے، نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ زلزلے سے زندہ بچ جانے والے افراد پر برسوں شدید حزن وملال، پژمردگی، خوف اور ڈراوٴ نے خواب مسلط رہتے ہیں، ویکی پیڈیا آزاد دائرة المعارف کے مطابق ایک اندازہ لگایا گیا ہے کہ اب تک آنے والے زلزلے آٹھ کروڑ انسانوں کو ہلاک کرچکے ہیں اور مالی نقصانات کا شاید کوئی حساب ہی نہیں کیا جاسکتا۔در حقیقت یہ زلزلے اللہ تعالیٰ کی آیات وعلامات میں سے ہیں ۔قرآن کریم میں قوم شعیب پر عذاب آنے کا تذکرہ ہے اور اُس کی وجہ قرآن نے ناپ تول میں کمی بیشی بتائی ہے کہ ان کی عادت بن گئی تھی کہ لینے کا وقت آتا تو زیادہ لیتے اور دینے کا وقت آتا تو کمی کردیتے تھے،
مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ ناپ تول میں کمی صرف محسوسات میں نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ معنوی چیزوں میں بھی ہوسکتی ہے مثلا لوگوں کے حقوق کی پامالی، ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میں اپنا پورا حق سمیٹ لوں اور جب دینے کا وقت آئے تو مجھے پورا نہ دینا پڑے۔اگر قوم شعیب پر ناپ تول میں کمی کی وجہ سے عذاب اور زلزلہ آسکتا ہے تو آج حقوق اللہاور حقوق العباد میں کمی بیشی کی وجہ سے زلزلہ آگیا تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔فَأَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُواْ فِیْ دَارِہِمْ جَاثِمِیْن (الاعراف:۹۱) اسی طرح حضرت موسی کی قوم پر عذاب آیا، حیلے حوالے اور کٹ حجتی کی وجہ سے فَلَمَّا أخذتہم الرجفةُ (پس جب ان کو زلزلے نے آدبوچا اللہ نے ان کو وہیں ہلاک کردیا) (الاعراف:۱۵۵) قارون جو مالداری میں ضرب المثل تھا۔جب اُس سے کہا گیا کہ ان خزانوں پر ا للہ کا شکر ادا کرو تو کہنے لگا، یہ سب میرے زورِ بازو کا کرشمہ ہے؛ چناں چہ اللہ نے اسے اِس ناشکری کی وجہ سے خزانہ سمیت زمین میں دھنسا دیا۔فَخَسَفْنَا بِہِ وَبِدَارِہِ الْأَرْض (القصص: ۸۱)آج اپنے معاشرے کا جائزہ لیجیے کتنے شرعی احکام میں قیل وقال کرنے والے ملیں گے اور کتنے ہی ایسے ملیں گے جن کے احساسات وجذبات قارون کی طرح ہیں۔یہاں سنن ترمذی کیایک حدیث نقل کی جارہی ہے جس سے زلزلہ کے اسباب کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (جب مندرجہ ذیل باتیں دنیا میں پائی جانے لگیں) تو اس زمانہ میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو،
زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں گی۔جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں ۔اللہ کے نبی نے چودہ سو سالپہلے ہی اِس کی اطلاع دی تھی، جہا ں یہ ارشاد ایک طرف اسلام کی حقانیت کی واضح دلیل ہے، نیپال میں آئے شدید زلزلے کے بعد ایک بار پھر یہ سوال ہر ایک کے ذہن میں آرہا ہے کہ یہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ زلزلے کے بارے میں لوگوں میں عجیب وغریب آرا پائی جاتی ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیو ہیکل درندے جو زمین کے اندر رہتے ہیں وہ زلزلے پیدا کرتے ہیں، ہندوٴں کا عقیدہ ہے کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب و ہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں، ( اس طرح کی بات ایک موضوع حدیث میں بھی ہے)۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زمین ایک بڑے کچھوے کی پیٹھ پر ہے، وہ جب حرکت کرتا ہے تو زلزلے آتے ہیں،یہ سب غیر اسلامی نظریات ہیں، سائنس داں حضرات کےنظریات میں اختلاف ہے ، کچھ کا کہنا ہے کہ زمین کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں، اور کچھ کہتے ہیں کہ زمین ٹھنڈی ہورہی ہے اور اِس عمل کے نتیجے میں اس کا غلاف کہیں کہیں چٹخ جاتا ہے جس سے زلزلے آتے ہیں، کچھ سائنس داں حضرات کا دعوی ہے
کہ زمین کے اندرونی حصے میں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس بے پناہ حرارت کی وجہ سےزمین غبارے کی طرح پھیلتی ہے۔لیکن اِس وقت سب سے مقبول نظریہ ”پلیٹ ٹیکٹوٹس“ کا ہے، جس کی معقولیت کو تمام غیر مسلم ماہرین نے تسلم کرلیا ہے کہ جب زمین کی پلیٹ جو تہہ در تہہ مٹی، پتھر اور چٹانوں پر مشتمل ہوتی ہے، کسی ارضیاتی دباوٴ کا شکار ہور کر ٹوٹتی یا اپنی جگہ چھوڑتی ہے تو سطح زمین پر زلزلے کی لہریں پیدا ہوتی ہیں، یہ لہریں نظر تو نہیں آتیں؛ لیکن اِن کی وجہ سے سطح زمین پر موجود ہرچیز ڈولنے لگتی ہے۔لیکن اِس کے بر خلاف اِسلامی نقطہٴ نظر سے دیکھا جائے تویہ بات واضح ہے کہ زلزلے کا بنیادی سبب انسان کا بد اعمالیوں پر اصرار ہے، اور اِس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے زبردست آزمائش ہے۔ہمیں یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ تمھارا رب تم سے ناراض ہے، تم نیکیوں کی جانب متوجہ ہوجاوٴ،اور مامورات کا امتثال اور منہیات سے اجتناب اپناشیوہ بنالو۔لہٰذا اِس موقع پر ہمیں وہی کام کرنا چاہیے جو اِس موقع پر اسلام ہم سے چاہتا ہے؛ چناں چہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: جہاں زلزلہ آتا ہے اگر وہاں کے لوگ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے، ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔ (الجواب الکافی لابن القیم،ص:۴۷) الغرض زلزلوںکے تعلق سے اسلام میں مکمل رہنمائی موجود ہے اور مشترکہ طور سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ زلزلے صرف زیر زمین پلیٹوں کے ملنے یا چٹانوں کے کھسکنے کی وجہ سے نہیں آتے۔بلکہ یہ انسانوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے آتے ہیں اور یہ زلزلے انھیں بد اعمالیوں سے باز آنے کے لیے الارم اور وارننگ ہیں؛
لہٰذا یہ بندوں کے حق میں رحمت ہیں کہ اُن کو اِسی دنیا میں اپنی اصلاح کے لیے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں؛ لیکن موجودہ سائنس کایہ مانناہے اور میڈیا چلا چلا کر اُس کے نظریات کی تشہیر کررہا ہے کہ مصائب، آفات اور زلزلوں کا ظہور کسی عبرت اور نصیحت کے لیے نہیں؛بلکہ اِس کا تعلق تو طبعیات سے ہے اور الحاد ودہریت کے بڑھتے ہوئے دور میں انسان کی قساوتِ قلبی اِس انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے کہ غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے کچھ مسلمان بھائی بھی اِسے صرف سائنس کا کرشمہ ہی سمجھتے ہیں اوراِن حالات میں جانی ومالی حفاظت کا ہی تذکرہ کرتے ہیں، توبہ واستغفار اور انابتِ الی اللہ کو ضروری نہیں سمجھتے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کی تنبیہ کے لیے زمین کو حکم دیتے ہیں کہ تھوڑا ان کو جھٹکا دے تو زمین جھٹکا دیتی ہے، یا سائنس کی زبان میں یوں کہنا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں سے خوش ہوتے ہیں تو جغرافیائی اور ماحولیاتی پیرامیٹرز کو بندوں کے موافق بنادیتے ہیں اور جب ناراض ہوتے ہیں تو پیرا میٹرز میں ایسی تبدیلی آتی ہے کہ لوگ آفات میں جکڑے جاتے ہیں۔ بہر حال ان زلزلوں سے ا یک مسلمان کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور دعا واستغفار، صدقہ وخیرات اور ترکِ معاصی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ (آپ کے مسائل، ۱/۳۸۶)لہٰذا اِس وقت جب کہ پوری دنیا زلزلے کے ا ثرات کو محسوس کررہی ہے،ہم تمام مسلمان بھائیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے ناواقف اور دین سے برگشتہ مسلم نوجوان کا ذہن صاف کریں،شکوک وشبہات مٹائیں، اِس کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھائیوں کے سامنے زلزلے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات وہدایات اور قرآنی ارشادات وفرمودات پُر زور انداز میں پیش کریں اور اسلام وسائنس کا تقابلی جائزہ پیش کرکے معیارِ حق کو ثابت کرنے کی کوشش کریں، کیا پتہ کچھ بے راہ رو، راہِ راست پر آجائیں، ہر شر میں خیر کا پہلو بھی ہوتا ہے،اور ہر تخریب، تعمیر کا پیش خیمہ ہوتی ہے، اللہ ہمیں حوصلہ دے!آمین۔(ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9 ، جلد: 99 ، ذی قعدہ 1436 ہجری مطابق ستمبر 2015ء:از: محمد تبریز عالم قاسمی، استاذ دارالعلوم حیدرآباد)