لاہور( مانیٹرنگ ڈیسک) افتخار ٹھاکر ، پاکستانی کامیڈی کا وہ نام ہے جسے لیے بنا نہ پاکستانی تھیٹر مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی پاکستان کے کامیڈی حلقے، اپنے منفرد انداز اور ادکاری کے جوہر دکھا کر لوگوں میں خوشیاں بکھیرنے والے افتخار ٹھاکر دراصل کون ہیں؟ پہلی بار تمام حقائق سامنے آگئے۔
تفصیلات کے مطابق قومی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے افتخار ٹھاکر کا کہنا تھا کہ میرا تعلق میاں چنوں سے ہے، میں میاں چنوں سکول میں پڑھتا تھا، جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو میں اپنےسکول سمیت میاں چنوں کے چھ سکولوں میں مشہور تھا کہ میں بہت شرارتی بہت ہوں، لیکن مجھے میاں چنوں کے سکول سے نکال دیا گیا۔ میاں چنوں کے سکول سے نکالے جانے کے بعد میں نے کبیر والا کے ایک سکول میں داخلہ لے لیا کیونکہ میاں چنوں کے لوگ مجھے داخلہ نہیں دیتے تھے اورلیکن جیسے ہی میں میٹرک میں پہنچا تو کبیر والا کے سکول سے بھی مجھے نکال دیا گیا ۔ کبیر والے کے سکول سے نکالے جانے کے بعد میں ملتان گیا اور وہاں سے میٹرک مکمل کی۔ میٹرک مکمل ہونے کے بعد میرے والدین نے مجھے کہا کہ اب بہتر ہے تم اپنا خرچہ خود اُٹھاؤ، میں نے اپنی ماں سے اجازت لی اور میاں چنوں سے سیدھا کراچی چلا گیا ۔
کراچی کے موری بازار میں کام شروع کیا اور ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی بھی جاری رکھی، کامرس کالج سے ایف اے کرنے کے بعد کراچی کے سرکاری دفاتر کے باہر فارم بھرنے کا کام کرنے لگا، اس کے بعد میں نے نوکری کی جس کی تنخواہ 436 روپے ماہانہ ملتے تھے۔ وہاں پر ایک کرنل صاحب جو ڈپوٹیشن پر تھے انہوں نے سفارش کر کے مجھے اسلام آباد اپنے پاس بلا لیا لیکن وہاں سے بھی مجھے نوکری سے نکال دیا گیا ، اسلام آباد میں کافی کام کرنے کے بعد میں نے یہ سوچا کہ اب اپنا کام شروع کروں جس کے بعد میں نے پنکچر کی دکان بنانے کا فیصلہ کیا ، ٹائر شاپ بنانے کے بعد میں نے اپنے کا م کا آغاز کیا اور وہی پر اپنی گریجویشن بھی مکمل کی ، اس کے ساتھ ساتھ جہاں پر ڈرامہ ہو رہا ہوتا تھا میں وہاں پہنچ جاتا تھا اور وہ مجھے اپنی ٹیم کا حصہ بنا لیتے تھے۔ اس طرح آہستہ آہستہ میں لاہور کی تھیٹر انڈسٹری میں اِن ہوا، سہیل احمد ، وسیم عباس، مستانہ صاحب اور دیگر کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور اللہ نے عزت دی، اس کے بعد میں امریکہ میں ایک پلے کرنے گیا اور وہی میری نیت خراب ہوگئی کہ میں یہی رُک کر اپنی تعلیم مکمل کروں، اس لیے میں اپنی تعلیمی اسناد کو ساتھ لےن کر گیا ہوا تھا، پلے کے بعد میں وہی رُک گیا اور جب داخلہ لینے امریکہ کی یونیورسٹی پہنچا تو مجھے اندازہ ہوا کہ میری گریجوایشن کی ڈگری تو میٹر کی ڈگری کے مترادف ہے، پھر میں نے امریکہ سے تعلیم مکمل کی، اور وہاں پر نیکسز کمپنی میں کام کرنے لگ گیا ، یہ کمپنی ایرانی فیملی کی تھی، جب میں وہاں سے پاکستان آنے لگا تو انہوں نے مجھے کہا کہ اگر آپ کو پیسوں کا مسئلہ ہے تو وہ بڑھا دیتے ہیں، گھر دے رہے ہیں آپ کو گاڑی دے رہے لیکن آپ پاکستان جانا چاہتے ہو، وہاں مت جاؤں وہاں صرف اندھیرا ہے۔ افتخار ٹھاکر کا کہنا تھا کہ میں نے انہیں کہا کہ ’’ جو اللہ امریکہ میں ہے وہی اللہ پاکستان میں بھی ہے ‘‘ اور یہ کہہ کر میں پاکستان آگیا اور یہاں آکر اپنی فیلڈ میں کام کا آغاز کیا۔ میرے ایرانی فیملی کے ساتھ اچھے تعلقات تھے ، دو سال گزرنے کے بعد انکی مجھے کال آئی کہ ہم لوگ اپنے آباہی ملک ایران آ رہہے ہیں چھٹیاں گزارنے لیکن ٹرانزٹ ویزے کے ذریعے ہم پاکستان بھی آئیں گے تمہیں ملنے کے لیے۔
افتخار ٹھاکر نے بتایا کہ میں جب انہیں لاہور ائیر پورٹ سے لے کر گھر آیا، اور پی سی ہوٹل شچھوڑنے گیا تو اس فیملی نے مجھے کہا کہ تم نے ہمیں اپنا گھر، گاڑی دکھائی ہے لیکن ہم تب ہی یہ جانتے تھے کہ تم ضرور کرو گے اور یہ چیزیں دیکھ کر مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی، ہم جانتے تھے تم پاکستان میں بھی کامیابیاں ہی سمیٹو گے۔