counter easy hit

عمران خان کو فیصلہ کرنے اور بعد میں بدل ڈالنے کی ایک عادت سی کیوں ہے ؟ کن تین لوگوں کی وجہ سے آج کپتان کوئی بھی درست فیصلہ کرنے سے قاصر ہے ؟ ہارون الرشید کی ایک جاندار تحریر

لاہور (ویب ڈیسک) رفوگری سے کام نہیں چلے گا۔ ایک صدی ہوتی ہیں جب شاعر نے کہا تھا مصحفی ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ ہوگا کوئی زخم تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا عمران خان کے بہی خواہ پریشان ہیں ،بہت پریشان۔یہ ان کا ذکر نہیں جو دورکھڑے تماشائی ہیں۔ یہ وہ ہیں، نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔عمر بھر جو معرکوں میں شریک رہے اور پے در پے کامیابیاں حاصل کیں۔ مشکلات اور بحرانوں میں جنہیں یاد کیا جاتا ہے۔ کم از کم تین ایسے آدمی ہیں جنہیں میں جانتا ہوں، ممکن ہے کچھ دوسرے لوگ اس سے بھی زیادہ اہل ہوں۔ روزازل ابلیس نے پروردگار سے جب یہ کہا کہ وہ آدمی کو گمراہ کرے گا۔ اللہ نے اس دعوے کی تردید نہ کی۔ فقط یہ کہا” میرے مخلص بندے گمراہ نہ ہوںگے” یہ مخلص بندے کون ہیں۔ فرمایا: قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے جنہوں نے ہمیشہ سچائی اور صبر کی نصیحت کی ایسے ہی لوگوں کے بل پر ازل سے دنیا کا کاروبار چلتا آیا ہے ۔کسی ادارے قوم،قبیلے اور حکومت میں ان کی تعداد زیادہ ہوتوزندگی ظفر مند ہوتی اور دمکتی ہے۔ اگر کم ہوںتو زوال کا آغاز ہوتا ہے۔ کپتان کے پاس برائے نام ہے۔ بہت کچھ انحصار لیڈر پہ ہوتا ہے۔ قائد اعظم نے کہا تھا: آدھی جنگ موزوں لیڈر کے انتخاب سے جیت لی جاتی ہے۔ آپ کا شعار یہ تھا کہ فیصلہ کرتے تو ڈٹ جاتے۔ عمران خان بالکل برعکس ہیں۔ فیصلہ کرتے ہیں اور بدل ڈالتے ہیں۔ اس لئے کہ اقدام سے پہلے کافی غور و خوص کبھی نہیں کرتے۔ کاروبار حکومت،سیاست اور معیشت کا فہم کم رکھتے ہیں۔مداوا اس کا یہ ہوتا ہے کہ بہترین لوگوں سے مشورہ کیا جائے۔ بدقسمتی سے بہترین لوگوں کا کپتان نے انتخاب نہیں کیا۔ اول روز سے اس کا مسئلہ یہی ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ کام کرنا وہ پسند کرتا ہے، آسودہ جن کے ساتھ وہ محسوس کرے۔ لازم نہیں کہ وہ مخلص اور لائق بھی ہوں۔ قائداعظم کن لوگوں سے مشورہ کیا کرتے؟ اپنی کالی بی ایم ڈبلیو،ریل گاڑی یا ہوائی جہاز میں سوار، ڈھاکہ سے پشاور تک بھاگتے رہتے یا سارا وقت اپنے دفتر میں بیٹھ کر فائلیں پڑھتے اور اپنی جان گھلاتے رہتے۔ مشاورت کی محفلیں منعقد کرتے ،فرصت ہوتی تو عشائیہ کے لیے مہمان مدعو کیاکرتے یاکسی دوست کے ہاں تشریف لے جاتے۔ وہ غیر معمولی جذباتی توازن کے آدمی تھے۔ ترجیحات مرتب کرنے کا جو سلیقہ ان میںتھا، اس کی مثال کم ملے گی۔ برصغیر میں تو شاید ہی۔ طلبا سے ملاقاتیں کرتے یا نوجوان سیاسی کارکنوں سے ،کسی بھی شہر میں جاتے، پارٹی لیڈروں کے علاوہ ہمدرد وکلا سے بات کرتے۔ علماء حضرات مثلا مولاناشبیراحمدعثمانی سے بھی لیکن وکلا سے زیادہ اور مولوی صاحبان سے کم کم۔ اس لیے کہ وکیل زیادہ لوگوں سے ملتاہے ، زیادہ حقیقت پسند ہوتا ہے ۔ انتہا یہ ہے کہ اپنے پرجوش حامی اور دانا مولانا اشرف علی تھانوی سے بھی ان کی کبھی ملاقات نہ ہوسکی، خواہش ان کی بہت تھی۔ جب بھی ضرورت ہوتی مولانا اشرف علی تھانوی،سوجھ بوجھ رکھنے والوں کا ایک وفد روانہ کرتے۔ اخلاقی جرات کے امین ایسے ہوشمند،شائستگی کے ساتھ لیکن کھرے لہجے میں جو بات کرتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر قائداعظم سے کہا گیا :آپ کو ہرگز یہ نہ کہنا چاہئے کہ سیاست اور مذہب الگ ہیں۔ جیسا کہ ان کا دستور تھا، وفد سے کہا اپنے دلائل وہ پیش کریں۔ انہوں نے پیش کیے۔ اس اس پر آپ نے کہا کہ آئندہ وہ ایسا نہیں کہیں گے۔ لیڈر یہی ہوتا ہے صاف اور سیدھی بات کہتا ہے۔ صاف اور سیدھی بات کا برا نہیں مناتا۔ وہ جانتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے جانتا ہے کہ انفرادی یا اجتماعی، کامیابی کا انحصار اصولوں کی پیروی پر ہوتا ہے۔ اپنی ذات کی نفی پر۔ جس شخص کو اپنے آپ سے محبت ہو ، اور جو ہر حال میں اپنا دفاع کرنے پر تلا رہے وہ چوٹ کھانے والی جگہ پر چوٹ کھا کر رہے گا۔ قائداعظم کی وفات پر مولاناشبیراحمدعثمانی نے یہ کہا”وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے مسلمان تھے” ان کا اشارہ آپ کی محیر العقول سیاسی کامیابیوں کی طرف ہی نہ تھا، اخلاقی عظمت کا اعتراف بھی۔ عمر بھر قائداعظم پر یہ الزام کبھی نہ لگا کہ کسی ایک چھوٹے سے معاملے میں بھی غلط بیانی سے کام لیا ہو۔ آپ کے بدترین دشمن بھی ان کی اٹل دیانت کے معترف تھے ،سیاسی بصیرت کے بھی۔ یہ بصیرت کامل دیانت اور ریاضت کا ثمر تھی۔’’مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ‘‘ وہی بات:فیصلہ کرنے سے پہلے سوبار میں سوچتا ہوں لیکن کر چکوں تو تبدیل نہیں کرتا۔ بالکل برعکس عمران خان یہ کہتے ہیں :یو ٹرن ہر عظیم لیڈر کا خاصا ہوتا ہے۔ یہ خود فریبی ہے اور تباہ کردینے والی خود فریبی۔ جس کسی نے بھی یہ سبق انہیں پڑھایا ہے وہ پرلے درجے کا احمق ہے یا تاویل کرنے والا آدمی،جس کی پہلی اور آخری ترجیح اپنے لیڈر کی خوشنودی ہوتی ہے۔ لیڈر کا حال اس سے بھی برا ہے۔ نہ صرف یہ کہ بات مان لی بلکہ آئے دن دہراتا ہے۔ بدقسمت وہ نہیں جو غلطی کا مرتکب ہو۔ اس لیے کہ انسان کو خطا ونسیان سے بنایا گیا۔بدقسمت وہ ہے، اپنی غلطیوں کا جواز ڈھونڈتا اور پیش کرتا رہے۔ بہت سے یوٹرن عمران خان نے لئے اور بہت سے لینے پڑیں گے۔ تازہ ترین مثال میڈیا کے لئے مخصوص ٹریبونل کا اعلان تھا۔ اسی وقت عرض کیا تھا کہ حکومت کویہ فیصلہ واپس لینا ہوگا۔ اڑتالیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے موڑ کاٹنا شروع کیا۔ کچھ نہ کچھ سلیقہ اس خاتون میں پایا جاتا ہے، چنانچہ موڑ کاٹتے ہوئے قدرے احتیاط سے وہ کام لیتی ہیں۔ یکایک اور اچانک نہیں مڑ جاتیںبلکہ موٹروے کے ٹول پلازہ کی طرح دائرہ سا بنا کر واپس آتی ہیں۔ اس میں البتہ کوئی شبہ نہیں کہ واپس جانا ہی ہوگا۔ عافیت اسی میں ہے ورنہ کشمکش جاری رہے گی اس لیے کہ دوسرے تو کیا خود عمران خان کے حامیوں اور خیر خواہوں نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا۔ کوئی دن میں ایک اور یوٹرن بھی ہوگا۔ لگ بھگ تیس دن ہوتے ہیں حکومت نے فیصلہ کیا کہ ٹرکوں پر لدابوجھ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس میں 40 فیصد کمی ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ بوجھ تلے سڑکیں ٹوٹتی رہتی ہیں،قومی خزانے کو سینکڑوں ارب روپے سالانہ کا خسارہ ہوتا ہے۔ تجزیہ درست مگر فیصلہ غلط تھا۔ اس لیے کہ اس طرح کے اقدامات تدریج کے ساتھ کیے جاتے ہیں،رفتہ رفتہ،مرحلہ وار۔ اس سے پہلے خود میڈیا کے باب میں ایسی ہی ایک حماقت کا ارتکاب حکومت کر چکی تھی۔ اقتدار سنبھالتے ہی اشتہارات بند کر دیئے گئے اور ادائیگیاں بھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یوٹرن لینا پڑا اور خفت کے ساتھ وزیر اطلاعات تبدیل کرنا پڑا اور افراتفری میں۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے رفوگری کی کوشش کی لیکن رفوگری، رفوگری ہوتی ہے۔کامل اندمال گاہے ممکن نہیں ہوتا۔ شیشے میں بال رہ جاتا ہے،شیشے میں بال رہ گیا ہے۔ ٹرکوں پر 40 فیصد بوجھ اچانک کم کرنے کا فیصلہ تباہ کن ثابت ہوا۔ کراچی کی بندرگاہ پر سامان اتارنے اور چڑھانے کے لیے تیس دن انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اگر اس حکم پر عمل درآمد ہوتا رہا تو ملک کو کم از کم دو لاکھ مزید ٹرکوں کی ضرورت ہوگی، جس کے لیے بائیس ارب روپے درکار ہو ںگے۔ یہی کام بتدریج ہوسکتا ۔ دس فیصد،پھر بیس فیصد،پھر تیس اور چالیس فیصد۔مگر کیسے ہوتا وزیراعظم کے مشیرسطحی،نالائق اور خودغرض ہیں۔ کچھ عثمان بزدار ہیں کچھ جہانگیر ترین کچھ عون چودھری،کچھ نعیم الحق اور کچھ شاہ محمود قریشی۔ جواب وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ رفوگری سے کام نہیں چلے گا۔ ایک صدی ہوتی ہیں جب شاعر نے کہا تھا مصحفی ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ ہوگا کوئی زخم تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا۔(ش س م)

WHY, IMRAN KHAN, HAS, THE, HABBIT, TO, CHANGE, THE, DICISION, MADE, BY, HIMSELF, HAROON RASHEED, COLUMN

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website