اسلام آباد (ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے وفاقی دارالحکومت میں غریب اور ضرورت مند افراد کو مفت کھانا فراہم کرنے کے لئےپہلے احساس سیلانی لنگر خانہ پروگرام کا افتتاح کردیا ہے.یہ لنگر خانہ اسکیم سیلانی انٹرنیشنل اور حکومت کے احساس پروگرام نے مشترکہ شروع کیا ہے، اس کا دائرہ کارپورے ملک میں پھیلایا جائے گا جبکہوزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات بہتر ہونے تک انڈیا سے مذاکرات نہیں کر سکتے، پا ک بھارت مذاکرات کا سب سے بڑا حامی میں تھا مگر مودی نے اپنا حقیقی چہرہ دکھا دیا، دونوں ملک ایٹمی طاقت ہیں، خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں، معاملات کسی بھی سطح پر جا سکتےہیں، معاملات خراب ہوئے تو دنیا کے لئے پریشانی ہوگی۔نیا پاکستان ایک فلاحی ریاست ہوگی‘امیروں سے ٹیکس وصول کرکے غریبوں پر خرچ کریں گے‘ملک بھر میں پہلے مرحلے میں112لنگرخانے کھولے جائیں گے‘جب تک روزگار کے حالات بہتر نہیں ہوتے ہم کوشش کریں گے کہ کوئی شخص بھوکا نہ رہے‘ عوام میں صبر نہیں ہے، 13 ماہ ہوئے ہیں اور لوگ پوچھتے ہیں کہاں ہے نیاپاکستان ؟ ۔ریاست مدینہ بھی چنددن میں نہیں بن گئی تھی، جدوجہد جاری ہے، پاکستان بدلے گا لیکن تبدیلی آہستہ آہستہ آئے گی، جب ہم اپنے کمزور طبقے کی مدد کریں گے تو ریاست میں برکت آئیگی۔وہ امریکی سنیٹرز سے گفتگو اور قبل ازیں احساس سیلانی لنگر خانہ اسکیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے ۔دریں اثناءپاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید سے امریکی سینیٹرز کرس وان ہولن اور میگی حسن نے ملاقات کی جس میںباہمی دلچسپی کے امور اور علاقائی سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ افغان مفاہمتی عمل اور مسئلہ کشمیر پر بھی بات چیت کی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق امریکی سینیٹرز نے آرمی چیف سے جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) راولپنڈی میں ملاقات کی۔آرمی چیف نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکی حمایت کی تعریف کیاور افغانستان میں امن کیلئے پاکستان کی کوششوں کے اعتراف کو سراہا ۔ قبل ازیں لنگراسکیم کا افتتاح کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ احساس پاکستان کی تاریخ کا غربت ختم کرنے کا سب سے بڑا پروگرام ہے‘ملک بھر میں پہلے مرحلے میں 112 لنگر خانے کھولے جائیں گے، یہ لنگر خانے ان علاقوں میں کھولے جائیں گے جہاں محنت کش، بیروزگاری اور بھوک کا شکارہیں، حکومت کاروبار اور صنعتوں کے فروغ کے لئے ہر ممکن تعاون فراہم کررہی ہے، مشکل وقت ہے لیکن ہمیں کمزور طبقے کا احساس ہے، کوشش ہے کہ لوگ بھوکے نہ رہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں ریاست مدینہ کی طرز پر پروگرام شروع کررہے ہیں‘انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی سال سے غریب غریب تر اور امیر امیر ترین ہورہا ہے، اس ملک میں غریب تو ٹیکس دیتا ہے ،امیر ٹیکس نہیں دیتا۔انہوں نے کہا کہ کوشش ہے کہ کاروباری طبقے کو اوپر اٹھائیں، نیا پاکستان کے لئے جدوجہد جاری ہے، بتدریج ملک میں تبدیلی آئے گی، 70 سال کے مسائل کو حل کرنے میں کچھ وقت لگے گا‘ان کا کہناتھاکہ ہم سارا ٹیکس غریب پر مہنگائی کرکے اکٹھا کرتے ہیں، اس سے فاصلے بڑھ رہے ہیں، اس سے نظام میں برکت نہیں آتی، ہم اس کو الٹا کررہے ہیں۔ہم کاروباری طبقے کی مدد اس لیے کریں گے کہ وہ پیسہ بنائیں، اس سے ہمارا ٹیکس اکٹھا ہو اور وہ ہم کمزور طبقے پر خرچ کریں، جیسا چین نے کیا۔دریں اثنا ء وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے تعاون پرامریکی سینیٹرز سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کشمیر کے حالات بہتر ہونے تک مذاکرات کی ٹیبل پر نہیں بیٹھ سکتے‘دونوں ملک ایٹمی طاقت ہیں، خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں‘معاملات کسی بھی سطح پر جا سکتےہیں، معاملات خراب ہوئے تو دنیا کے لئے پریشانی ہوگی۔تفصیلات کے مطابق عمران خان سے امریکی سینیٹرزکرس وان ہولین اور میگی حسن کی ملاقات ہوئی ، ملاقات میں امریکی رکن کانگریس طاہر جاوید ،ناظم الامور پال جونز بھی شریک ہوئے ۔امریکی وفد نے دورہ آزاد کشمیر کے بعد ذاتی مشاہدے سے وزیراعظم کو آگاہ کیا ، عمران خان نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے تعاون پرامریکی سینیٹرز سے اظہار تشکر کیا۔عمران خان نے کہاکہ مودی نے بھارت کا چہرہ پوری دنیا میں تبدیل کردیاہے، یہ وہ بھارت نہیں جومیں سمجھتا تھا، میں پاکستان اور بھارت میں مذاکرات کا سب سے بڑا حامی تھا، بھارت ہندو سپرمیسی کی جانب بڑھ رہا ہے، دونوں ملک ایٹمی طاقت ہیں، معاملات کسی بھی سطح پر جا سکتےہیں، معاملات خراب ہوئے تو دنیا کے لئے پریشانی ہوگی‘ہمیشہ سے معاملات پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتا تھا۔اب مودی سے بات کرنے کیلئے کوئی اخلاقی صورت نہیں بنتی‘ملاقات میں افغان امن عمل پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی ، جس پر وزیراعظم نے کہاکہ طالبان چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن ہو، امریکا بھی چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن ہو ، افغان امن عمل پر مرحلہ واربات چیت ہونی چاہیے اور اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے، ہم کشمیر اور افغان امن عمل آگے بڑھانے پر زور دیں گے۔