لاہور: عرصہ ہوا میری آصف علی زرداری صاحب سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ انہیں ملے بغیر میرے لئے یہ ناممکن ہے کہ ان کے ذہن میں موجود حکمت عملی کا اندازہ لگاتے ہوئے اس پر تبصرہ آرائی کرسکوں۔ 25جولائی2018کے بعد سے موصوف کی جانب سے اٹھائے کئی اقدامات البتہ
نامور کالم نگار نصرت جاوید اپنے کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔یہ سوچنے کو مجبور کررہے ہیں کہ وہ عمران حکومت کے استحکام میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتے۔ اس کے ابتدائی ایام میں اسے فری ہینڈ دینا چاہ رہے ہیں۔مسلم لیگ شہباز شریف کی قیادت میں ابھی تک کوئی جاندار بیانیہ ترتیب نہیں دے پائی ہے۔ بہت غصہ ہمیں ان جماعتوں کی صفوں میں نظر آرہا جنہیں خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں بدترین انتخابی نتائج کو ہضم کرنا بہت مشکل محسوس ہورہا ہے۔ اپنے تئیں یہ جماعتیں مگر فی الحال سڑکوں کو گرماتے ہوئے حکومت کو پریشان کرنے کی قوت سے محروم ہیں۔ ان کی فوری ترجیح قومی اسمبلی اور سینٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ہے اور یہ اتحاد ٹھوس وجوہات کی بدولت فی الوقت ممکن نہیں ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابا ت کے ذریعے نہ صرف سندھ کو ا پنے لئے بچالیا بلکہ قومی اسمبلی میں اپنی نشستوں میں اضافہ بھی کیا۔ عمران حکومت کو قبل از وقت انتخابات کی طرف دھکیلنا اس کی ترجیح ہو نہیں سکتی۔ 25جولائی 2018کے انتخابی عمل کے ذریعے ابھرے نقشے میں اس کا اقتدار میں حصہ بلکہ بقدر جثہ موجود ہے۔ وہ موجودہ نظام کی ایک حوالے سے اہم Stakeholderبھی ہے۔ اسے عدم استحکام کا نشانہ بنانا پیپلز پارٹی کے مفاد میں نہیں۔
یہ بات لکھتے ہوئے میں ہرگز اس سازشی تھیوری کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا جو ہمیں یہ فرض کرنے پر مجبور کررہی ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے منی لانڈرنگ کے ایک بہت بڑے سکینڈل کا تعاقب کرتے ہوئے آصف علی زرداری کو ”بلیک میل“ کیا جارہا ہے۔ اپنی جند بچانے کے لئے موصوف کے پاس عمران حکومت کی تابعداری کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں بچا۔سیاست مگر کچھ دینے کے بعد بہت کچھ لینے کا نام بھی ہے۔ مثال کے طورپر 25جولائی 2018کے دن تحریک انصا ف نے کراچی کو ایم کیو ایم سے ”آزاد“ کروالیا۔ وہ اس شہر سے قومی اسمبلی کی 12نشستیں لے کر سب سے بڑی جماعت کی صورت ابھری۔انتخابی عمل مکمل ہوجانے کے بعد مگر دونوں جماعتوں کو حکومت سازی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے ایک دوسرے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ایم کیو ایم نے اپنے تعاون کی قیمت دو اہم ترین وزارتوں کی صورت میں وصول کی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ”دوستانہ اپوزیشن“ کا کردار ادا کرتے ہوئے پیپلز پارٹی اپنے لیے کیا حاصل کر پائے گی۔اس سوال پر بہت غور کرتے ہوئے میں کوئی تسلی بخش جواب حاصل نہیں کرپایا ہوں۔ کئی دنوں سے اس کالم کے ذریعے اگرچہ اصرار کررہا ہوں
کہ عمران خان صاحب کی پالیسیوں کو جاننے کے لئے ان کی Core Constituencyکو سمجھنا ہوگا۔ امریکی سیاسی لغت میں اسے Baseکہا جاتا ہے۔تحریک انصاف کی Baseجارحانہ انداز میں اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ چاہتی ہے۔ عمران خان صاحب نے انہیں تواتر اور مستقل مزاجی کے ساتھ اس امر پر قائل کیا ہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری ہماری سیاست میں کرپشن کی بدترین علامتیں ہیں۔ نواز شریف اس کی وجہ سے بالآخر وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہوئے اور ان دنوں اڈیالہ جیل میں اپنے کئے کی سزا بھگت رہے ہیں۔نواز شریف کو ان کے ”انجام“ تک پہنچانے کا کریڈٹ تحریک انصاف کو لیکن نہیں جاتا۔ کہانی پانامہ دستاویزات کے منکشف ہونے سے شروع ہوئی۔ تحریک انصاف نے اس کی بنیاد پر بھرپور سیاسی مہم چلائی۔ سپریم کورٹ اس مہم کی وجہ سے مداخلت پر مجبور ہوئی۔ بالآخر اس کی بنائی JITکے ذریعے نواز شریف کو سزا دلوانے کے لئے مواد جمع ہوا۔ تحریک انصاف کا اس عمل میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ ٹھوس حوالوں سے غورکریں تو اس نے بلکہ دوسروں کی قوت ومحنت کا پھل پایا۔محض نواز شریف کے اڈیالہ جیل چلے جانے سے لیکن تحریک انصاف کی Baseمطمئن نہیں ہے۔ اس کا اس ضمن میں ”دل مانگے More“والا رویہ ہے۔ اس رویے کی تشفی کے لئے عمران خان حکومت ایف آئی اے کی جانب سے منی لانڈرنگ کے سکینڈل پر بہت انحصار کررہی ہے۔
اسے گماں ہے کہ اس سکینڈل کا بھرپور تعاقب کرتے ہوئے اسے آصف علی زرداری کا ”پانامہ“ بنایا جاسکتا ہے۔اس امکان کو یقین کی صورت دینے کے لئے خان صاحب نے وزارتِ داخلہ پر کسی شخص کو فائز نہیں کیا۔ خود اس محکمے کی کمان سنبھال لی ہے۔ ایف آئی اے پر براہِ راست کنٹرول حاصل کرنے کے بعد عمران خان صاحب کی یہ مجبور ی بن چکی ہے کہ منی لانڈرنگ والے قصے کو ہر صورت آصف علی زرداری کا پانامہ بنایا جائے۔ خان صاحب اس مقصد میں کامیاب ہوگئے تو ان کی Baseواہ واہ پکاراُٹھے گی۔احتساب کو فقط نعرہ شمار نہیں کرے گی۔ معاملہ لیکن آصف علی زرداری کو بھی اڈیالہ پہنچانے تک ہی محدود نہیں رہے گا۔70ءکی دہائی میں سندھ سیاسی اعتبار سے ”شہری“ اور ”دیہی“ میں تقسیم ہونا شروع ہوگیا تھا۔ 80 ءکی دہائی نے اس تقسیم کو وحشیانہ صورت دی۔ایم کیو ایم نے 30برس تک اس وحشت کا بھرپور فائدئہ اٹھایا۔ ”شہری“ سندھ کو لیکن مطمئن نہ کر پائی۔”شہری“ سندھ کا Mindsetکراچی کو ”کچرے کا ڈھیر“ بناکر دکھاتا ہے۔ تھرپارکر میں بچوں کی ہلاکتوں پر واویلا مچاتا ہے۔ اس کی دانست میں ”دیہی“ سندھ کی سوچ جاگیردارانہ اور فرسودہ ہے اور پیپلزپارٹی اس سوچ کی بھرپور نمائندگی کرتی ہے۔عمران خان صاحب کے ذہن میں بسے ”نئے پاکستان“ میں اس جماعت کو برداشت کرنا لہذا ناممکن ہوگا۔ تحریک انصاف کو بلکہ ایم کیو ایم سے دو ہاتھ بڑھ کر ”نئے پاکستان“ میں ”شہری“ سندھ کی نمائندگی کرنا ہوگی۔آصف علی زرداری صاحب کی جانب سے عمران حکومت کے لئے پیدا کی جانے والی آسانیاں میری دانست میں سیاسی اعتبار سے پیپلز پارٹی کے لئے آنے والے دنوں میں کچھ حاصل نہیں کر پائےں گی۔ ان دو جماعتوں کے مابین Showdownہوکے رہنا ہے۔ ہمیں فقط ”کب“ کا انتظار کرنا ہوگا