نگران حکومتوں کا قیام ایک ختم نہ ہونے والا ڈرامہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ تو ایک حد تک خوشی کی بات ہے کہ سابق حکومت اور حزب مخالف کے رہنمائوں کے درمیان طویل صلاح مشورہ کے بعد آخر کار نگران وزیرِاعظم کے نام پر اتفاق ہوگیا لیکن اب بھی جب کہ عام انتخابات میں چالیس کے قریب دن رہ گئے ہیں، پنجاب اور بلوچستان کے نگران وزرائے اعلیٰ کا انتخاب تنازعات میں الجھا ہوا ہے۔
خیبر پختون خوا میں پارلیمانی کمیٹی نگران وزیرِاعلیٰ کے نام پر اتفاق رائے میں ناکام رہی ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن نے ریٹائرڈ جسٹس دوست محمد کو نگران وزیرِاعلیٰ مقرر کیا ہے لیکن پنجاب میں یہ معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے اوراب یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ادھر بلوچستان میں بھی نگران وزیرِ اعلیٰ کے نام پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے۔ صرف سندھ ہے جہاں باسانی نگران وزیرِاعلیٰ کی نامزدگی ہو سکی ہے۔
بلاشبہ نگراں حکومتوں کا قیام آئین کا تقاضہ ہے لیکن موجودہ صورت حال ملک کے لئے اذیت کا باعث ہے اور میری طرح عوام کے ذہنوں میں یہ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ عام انتخابات کے لئے آخر نگران حکومت کے قیام کے لئے اس طویل الجھائو کا کیا فائدہ۔
ساری دنیا میں جہاں ویسٹ منسٹر کے طرز کا پارلیمانی جمہوری نظام ہے وہاں خاص طور پر عا م انتخابات کے لئے نگران حکومت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ برسر ِاقتدار حکومتیں ہی عام انتخابات کے دوران نگران حکومتیں تسلیم کی جاتی ہیں اور ان ہی کی نگرانی میں الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دارہوتے ہیں۔ نگران حکومت صرف اسی صورت میں قائم کی جاتی ہے جب کہ بر سر اقتدار حکومت عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجہ میں یا خود مستعفی ہونے کی صورت میں باقی نہ رہے یا جنگ کی ہنگامی صورت حال سے دوچار ہو۔
امریکا میں جہاں پارلیمانی جمہوری نظام نہیں ہے، صدر کے استعفیٰ یا مواخذہ کے بعد یہ عہدہ خالی ہونے پر نائب صدر حکومت سنبھالتا ہے اور وہی ایسا نائب صدر مقرر کرتا ہے جس کا آئندہ انتخاب لڑنے کا ارادہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر صدر نکسن کے استعفیٰ کے بعد نائب صدر فورڈ نے صدارت سنبھالی اور نیلسن راک فیلر کو نائب صدر مقرر کیا تھا۔
اٹلی میں صدر، ماہرین پر مشتمل نگران حکومت نامزد کرتا ہے۔ یہی حکومت انتخابات کے انعقاد کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ ان ملکوں میں جہاں عام طور پر مخلوط حکومتوں کی روایت ہے وہاں نگران حکومت کا قیام لازمی تصور کیا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش میں عام انتخابات کے انعقاد کے لئے نگران وزیرِاعظم کی تقرری کا سلسلہ سن نوے کے وسط سے شروع ہوا تھا لیکن 2013 میں آئینی ترمیم کے ذریعہ یہ طریقہ ترک کردیا گیا تھا۔
پاکستان میں نگران حکومت کے قیام کا سلسلہ، اگست 1990سے شروع ہوا تھا جب صدر غلام اسحاق نے بے نظیر بھٹو کی حکومت بد عنوانی کے الزام میں برطرف کر دی تھی اور عام انتخابات کے انعقاد کے لئے غلام مصطفی جتوئی کو تین ماہ کے لئے نگران وزیرِاعظم مقرر کیا تھا۔ ظاہر ہے اس وقت کوئی حکومت بر سر اقتدار نہیں رہی تھی اس لئے نگران وزیرِاعظم کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اسی طرح 1993میں نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کے بعد بلخ شیر مزاری کو نگران وزیرِاعظم مقرر کیا گیا، پھر صدر غلام اسحاق اور نواز شریف دونوں کے استعفوں کے بعد فوج کے سربراہ عبد الوحید کاکڑ کے مشورہ سے معین قریشی کو نگران وزیرِ اعظم کے فرایض کے لئے سنگا پور سے پاکستان طلب کیا گیا۔ پھر 1996میں جب صدر لغاری نے بے نظیر بھٹو کو برطرف کیا تو ملک معراج خالد سے نگران وزیرِاعظم کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے کہا گیا جن کے دور میں منعقد ہونے والے انتخابات میں نواز شریف بھاری اکثریت سے فتح مند ہوئے۔ پھر 2010میں سیاست دانوں نے نگران حکومت کے قیام کی روایت کو آئین کی اٹھارویں ترمیم میں دوام بخشا اور نگران وزیرِاعظم کے انتخاب کے لئے حکومت اور حزب مخالف کے درمیاں اتفاق رائے کا طریقہ اختیار کیا گیا۔
اس وقت بظاہر تو یہ روایت قابل تقلید محسوس کی گئی لیکن یہ نہیں سوچا گیا کہ اول تو نگران وزیرِاعظم کی نامزدگی پر اتفاق رائے کس قدر دقت طلب ہوگا۔ دوسرے اس بنیادی بات پر کسی نے نہیں غور نہیں کیا کہ انتخابی دھاندلی وزیرِاعظم کی سطح پر نہیں ہوتی۔ یہ دھاندلی دراصل پولنگ اسٹیشنوں پر اور ووٹوں کی گنتی کے مرحلہ پر ہوتی ہے۔ نگران وزیرِاعظم چاہے کتنا ہی ایماندار اور مخلص کیوں نہ ہو وہ کس طرح ملک کے ہزاروں پولنگ اسٹیشنوں پرنگرانی کر سکتا ہے۔ دوسرے انتخابی دھاندلی کے ذمہ دار دراصل حکومت کے اعلیٰ افسر اور عملدار ہوتے ہیں جیسے کہ سن چوہتر کے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کو دو تہائی اکثریت سے زیادہ کا سہرا پہنانے کے لئے سرکاری افسروں نے اندھا دھند انتخابی دھاندلی کی اور بھٹو کو دولہا بنانے کے بجائے انہیں سیاسی قبر میں اتار دیا۔
نہ جانے لوگ اتنی جلدی کیوں بھول جاتے ہیں کہ پچھلے عام انتخابات بھی نگران وزیرِاعظم میر ہزار خان کھوسو کے دور میں ہوئے تھے۔ انہیں حکومت اور حزب مخالف کے اتفاق رائے کے تحت مقرر نہیں کیا گیا تھا بلکہ اتفاق رائے میں ناکامی کی صورت میں الیکشن کمیشن نے چار ناموں میں سے چنا تھا۔
صالح اور ایماندار میر ہزار خان کھوسو، ان انتخابات کو کلی طور پر شفاف نہ بنا سکے۔ خود چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے اعتراف کیا کہ وہ منصفانہ اور شفاف انتخابات، خاص طور پر کراچی میں کرانے میں ناکام رہے ہیں اور انہوں نے اس عہدہ سے مستعفی ہونے کو ترجیح دی۔
تحریک انصاف کے عمران خان نے 2013 کے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کے بل پر دھرنا دیا تھااور نواز شریف کے خلاف مہم چلائی تھی۔ اس تجربہ کی بنیاد پر کون یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ شفاف انتخابات کے لئے نگران وزیرِاعظم کی تقرری لازمی ہے۔
پاکستان میں انتخابات کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب رواج، امیدواروں کے متعدد حلقوں سے انتخاب لڑنے کا ہے، جو یکسر ختم ہونا چاہیے۔ ایک تو کوئی ان امیدواروں سے پوچھے کہ اتئے زیادہ حلقوں میں آپ انتخابی مہم کس طرح چلا سکتے ہیں اور کس بنیاد پر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ آپ ان حلقوں کے عوام کے مسائل سے آگاہ ہیں۔
برطانیہ میں کوئی امیدوار اپنے حلقہ انتخاب کے علاوہ جسے وہ اپنے درخت کی طرح نشونما اوراس کی حفاظت کرتا ہے کسی اور حلقہ سے انتخاب نہیں لڑتا۔ پھر پارٹی کی طرف سے اسے اس حلقہ کے عوام کی خدمت پر مامور کیا جاتا ہے اس لئے وہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ وہ اس حلقہ سے انتخاب سے ہارنے کے بعد بھی اس حلقہ کے عوام کے مسائل کے حل کے لئے کوشاں رہے اور اس حلقہ میں اپنی سرجری (دفتر) کو باقاعدہ طور پر برقرار رکھ کر ووٹروں کی بلا امتیاز خدمت کرتا رہے۔ یہ ہے حقیقی جمہوریت کا پہلا زینہ۔
جمہوریت کی ایک اور اہم دہلیز پاکستان میں یکسر نظر انداز کر دی گئی ہے وہ ہے بلدیاتی ادارے۔ یہی جمہوریت کی جڑ ہے جو جمہوریت کے درخت کو سر سبز شاداب رکھتی ہے۔ برسوں گذر جاتے ہیں پاکستان میں بلدیاتی اداروں کے انتخاب نہیں ہوتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو اپنا رقیب تصور کرتی ہیں اور انہیں عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرکے ترقیاتی فنڈ پر قبضہ جما کر اپنی انا کو تسکین پہنچاتی ہیں۔
پاکستان میں انتخابی عمل کو شفاف بنانے اوراسے صحیح معنوں میں جمہوری روح سے روشن کرنے کے لئے جوبنیادی اصلاحات اور اقدامات لازمی ہیں ان پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا۔سارا زور زیبایش کے طور پر نگران حکومتوں کے قیام پر دیا جاتا ہے اور پھر انتخابات کے بعد الزام تراشیوں کا بے انت سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ موجودہ سیاست دان ان اصلاحات سے نہ صرف کتراتے ہیں بلکہ ان کی پر زور مخالفت کرتے ہیں کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ وہ خود ان اصلاحات سے بھسم ہو جائیں گے۔
اس کی کبھی کوشش نہیں کی گئی کہ الیکشن کمیشن کو آزاد اور طاقت ور بنایا جائے۔ اگر اپنے پڑوس میں اور دوسرے ملکوں کی طرح الیکشن کمیشن کو آزاد، خود مختار اور تمام سیاسی اثرات اور دبائو سے پاک بنایا جائے تو عام انتخابات کے لئے نگران حکومت کے قیام کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔جتنا وقت نگران حکومت کے قیام پر لگتا ہے اگر اتنا وقت پارلیمنٹ کی طرف سے الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اراکین کے انتخاب پر لگایا جائے تو حقیقی معنوں میں عام انتخابات شفاف طور سے منعقد ہو سکتے ہیں۔
دراصل ملک کا جاگیر داری نظام حقیقی جمہوری انتخابات کی راہ میں ایک ایسی فصیل کی صورت میں حائل ہے جس کو سر کرنا محال ہے۔ سندھ میں وڈیرے، پنجاب میں چوہدری اور بلوچستان اور خیبر پختوں خوا میں سردار اپنے مزارعوں اور کھیتوں میں کام کرنے والے کسان مزدوروں پر دبائو ڈال کر اپنے جبر واستبداد کے بل پر ووٹ ڈلواتے ہیں، یہ نہ صرف انسانیت کا بلکہ جمہوریت کا مذاق ہے۔اس المناک صورت حال کی اصلاح ا س بناء پر ممکن نہیں کہ آخر کار قانون سازی کے لئے قومی اسمبلی میں جانا پڑے گا لیکن وہاں تو تین چوتھائی یہی وڈیرے اور جاگیردار بیٹھے ہیں۔
پھر المیہ تو یہ ہے کہ ایک دو کے سوا ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے سیاسی جاگیروں کا روپ دھار لیا ہے۔ ان سے اور ان کے قائدین سے یہ توقع کرنا آسمان سے تارے توڑنے کے مترادف ہے کہ وہ ملک کے اس جاگیرداری نظام کے خلاف عوام کی ذہنی تربیت کا بیڑہ اٹھائیں گے اور معاشرہ کو اس نظام سے نجات دلانے کے لئے عملی اقدامات کریں گے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کے جاگیرداروں، زمینداروں اور سرداروں نے پاکستان کے حصول کی جدوجہد میں اہم رول ادا کیا ہے اور قائدِاعظم کی مدد کی تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس بنیاد پر پاکستان پر حکمرانی کا حق جتائیں اور اپنی جابرانہ اور استبدادی روایت پر اٹل رہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک جاگیرداروں اور زمینداروں کے اسی انداز فکر کی وجہ سے صحت مند جمہوری سیاست پروان نہیں چڑھ سکی ہے.