2018 کے انتخابات کے لیے اب تک 21,482 سے زائد امیدواروں میں سے %99 سکروٹنی کے راڈار سے کسی جدید مزائل کی طرح سلامتی سے نکل گئے ہیں. گویا، ان میں سے کوئی دوہری شہریت نہیں رکھتا، کسی نے کرپشن نہیں کی، قرضے معاف نہیں کروائے، اثاثے نہیں چھپائے، کوئی جرم نہیں کیا اور تمام نے اپنے واجب الادا ٹیکس ادا کر رکھے تھے۔
حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے امیدواروں میں سے 545 امیدوار مختلف اداروں کے نادہندہ ہیں۔ نادہندگان میں متحدہ مجلس عمل کے مولانا فضل الرحمٰن، تحریک انصاف کے مراد سعید، پیپلزپارٹی کے حامد سعید کاظمی، جماعت اسلامی کے اسد اللہ بھٹو اور مسلم لیگ ن کے حنیف عباسی سمیت تمام جماعتوں کے نامور سیاستدان شامل ہیں۔ ان میں جہاں پی ٹی سی ایل، واپڈا اور سوئی گیس کے ڈیفالٹرز ہیں، وہیں، قومی و سرکاری بینکوں سے کروڑوں کے قرضے لے کر ہڑپ کرنے والے بھی شامل ہیں۔ الیکشن ریفارمز بل 2017 کے بعد اب یہ معلومات نہ تو انتحابی نامزدگی فارم کا حصہ ہیں اور نہ ریٹرنگ آفیسرز نے کسی سے پوچھا کہ آپ نادہندہ تو نہیں یا آپ نے قرضے معاف تو نہیں کرائے؟ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ فہمیدہ مرزا سمیت کتنے ہی سیاستدان ایسے ہیں جنہوں نے قرضہ معاف کرائے اور وہ ریکارڈ پر ہیں لیکن ان کے کاغذات نامزدگی منظور ہونے کا چمتکار ہوچکا۔
انتحابی نامزدگی کے کاغذات جمع کراتے وقت سیاستدانوں نے وہ بلنڈر کیے ہیں جو عام آدمی کو تو بخوبی نظر آتے ہیں لیکن ریٹرننگ آفیسرز کو نہیں۔ پیپلزپارٹی کو تو دیکھیں تو چیئرمین، بلاول زرداری نے نہ صرف بلاول ہائوس کی قیمت صرف تیس لاکھ روپے بتائی بلکہ اپنی 2460 کنال زمین کی مالیت 9 لاکھ روپے ظاہر کی ہے جو 273 روپے فی کنال بنتی ہے۔ کوئی مجھے بتائے گا کہ پاکستان میں 273 روپے فی کنال زمین کہاں ملتی ہے؟
مسلم لیگ نون کے چھ قتلوں میں موت کی سزا پانے والے عابد رضا چوہدری کے کاغذات نامزدگی بھی منظور ہو چکے ہیں۔ خود شریف فیملی کے خلاف سانحہ ماڈل ٹائون میں باقر نجفی رپورٹ اور سپریم کورٹ میں (کیلبری فانٹ والے) جعلی کاغذات جمع کرانے کے باوجود نہ کسی عوامی نمائندے نے اعتراض جمع کرایا اور نہ ریٹرننگ آفیسرز نے اعلٰی عدالتوں کی تحقیقات کو در خود اعتنا سمجھا۔ این اے155 ملتان سے ن لیگ کے امیدوارطارق رشید 2008 میں بی اے تھے۔ 2018 کے الیکشن کے لیے انڈر میٹرک ہوگئے۔ خواجہ سعد رفیق صاحب نے اپنی شادی چھپائے رکھی۔ تحریک انصاف کے ڈاکٹر عامر لیاقت اپنی مبینہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے منحرف ہوچکے لیکن پھر بھی ان سب کے کاغذات نامزدگی بلاتامل منظور ہوئے۔
اس طرح کے سینکڑوں جرائم میں ملوث امیداواران، اس الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ جس انتخابی نظام میں دہشتگردی، قتل، اقدام قتل، رہزنی، اغواء برائے تاوان، ڈکیتی، بدعنوانی اور ریپ کے ملزمان کو انتخابات میں حصہ لینے کی چھوٹ ہو، انتخابی مہم چلانے کے لیے نادرا جیسے اداروں کے سربراہان کو خریدنے کی مکمل آزادی ہو، ایسے انتحابات کو ڈھونگی کہیں، جھرلو کہیں یا فکس شدہ، کیا فرق پڑتا ہے؟
صف اول کے ایک ٹی وی چینل کے مطابق، ایف آئی اے نے الیکشن کمیشن کو 122 امیدواروں کی دوہری شہریت کی لسٹ دی ہے جس میں سابقہ وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، فیصل واڈا، نادر لغاری اور نوید انور بھنڈر سمیت، قومی اسمبلی کے 49، پنجاب اسمبلی کے 53، سندھ سے 11، کے پی کے سے 8 اور بلوچستان سے ایک رکن اسمبلی کے دوہری شہریت رکھنے کے باوجود، انکے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے اور الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی، چونکہ اس حمام میں تمام جماعتیں ننگی ہیں، لہٰذا کسی نے کسی پر اعتراض نہیں کیا۔
سیاست سے شغف رکھنے والے ہر پاکستانی کو، 2 جون 2014 کا جناب عمران خان صاحب کا بیان ازبر ہے جس میں انہوں نے کہا کہ انتحابی نظام ٹھیک نہ ہوا تو اگلا الیکشن نہیں ہونے دینگے۔ سابقہ الیکشن میں ریکارڈ توڑ دھاندلی کی بنا پر یہ آواز ہر پاکستانی کے دل کی آواز تھی۔ چار حلقے کھلوانے کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا تھا جس کو طاہر القادری کے ماڈل ٹائون قتل عام پہ دھرنے کے ساتھ ملانے کی وجہ سے شاندار کامیابی ملی۔ چارحلقے کھلنے کا وعدہ ملا اور سپریم کورٹ نے انتحابی دھاندلی کا کیس سنا۔
موجودہ نگران وزیراعظم جسٹس ناصر الملک اس بینچ کے سربراہ تھے جنہوں نے فیصلہ دیا کہ منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے اور یوں الیکشن درست قرار پائے۔ بعد ازاں وزیرِ خزانہ کی صدارت میں انتحابی اصلاحات کے لیے کمیٹی بنا دی گئی جس میں جماعت اسلامی سمیت تمام جماعتوں کے علاوہ تحریک انصاف سے شیری مزاری، شفقت محمود اور عارف علوی شامل تھے۔ جس سے قوم کو امید بندھی تھی کہ اب شفاف الیکشن کا راستہ ہموار ہوگا۔
اس کمیٹی کے 118 اجلاس ہوئے جن میں 25 پارلیمانی کمیٹی کے اور 93 وزیرِ قانون زاہد حامد کی سربراہی میں قائم ذیلی کمیٹی کے اجلاس شامل ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے موصول ہونے والی 631 مختلف تجاویز پر غوراور ان کو شامل کرنے کے بعد انتخابی اصلاحات بل 2017 اسمبلی کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوا جس میں باقی نام نہاد اصلاحات کے علاوہ سیکشن 203 پر بھی تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں جو سیاسی جماعت کے صدر کی اہلیت سے متعلق ہے۔ پرانے قانون یعنی پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے مطابق پارٹی سربراہ کیلئے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اترنا ضروری تھا مگر نئے قانونی مسودے میں اہلیت کے ذکر کو ہی ختم کر دیا گیا۔ یعنی تمام جماعتیں متفق تھیں کہ پارٹی لیڈر کا امین اور صادق ہونا قطعاً غیر ضروری ہے۔
یہاں ایک دل چسپ بات بتاتا چلوں، اتفاق ایسا ہوا کہ جن دنوں میں یہ بل منظور ہو رہا تھا، نواز شریف نااہل ہو گئے۔ ابتدائی مراحل کی منظوری میں شریک جماعتوں کو خیال آیا کہ ا س تبدیلی کا فائدہ نواز شریف کو ہوگا تو شیخ رشید، عمران خان اور پیپلز پارٹی سمیت سولہ درخواست گزار سپریم کورٹ پہنچ گئے جس کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا کہ کہ سیکشن 203 کو آرٹیکل 62 اور 63 اے کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے یعنی آرٹیکل باسٹھ کے تحت صادق اور امین کی اہلیت پر پورا نہ اترنے والا شخص پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا اور یوں نواز شریف تاحیات نااہل قرار پائے۔
شفاف انتحابات کرانے کے لیے بنائی گئی اس انتحابی اصلاحات کمیٹی نے اصلاح تو نہیں کی الٹا نئے چور دروازے کھول دیئے۔ جی ہاں، اس کمیٹی نے انتحابی فارم میں اپنے اور بیوی بچوں کے اثاثے بتانے، دوہری شہریت، تعلیمی قابلیت، ٹیکس معلومات، قرضوں کی تفصیل، کریمنل ریکارڈ، واجب الادا یوٹیلیٹی بلز اور غلط معلومات پہ اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے سمیت تمام فلٹرز ہٹا کر کرپٹ لوگوں کا راستہ کھول دیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کاغذات نامزدگی میں اوپر دئیے گئے جرائم کی وجہ سے ریٹرننگ آفیسر کے لیے ابتدائی مراحل میں ہی امیدواران کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنا ممکن نہیں رہا۔ حیرت اس بات پہ ہے کہ جس تحریک انصاف نے تین سال لگا کر نوازشریف اور اسحاق ڈار کو اسی انتحابی نامزدگی فارم میں موجود 62/63 کی بنا پہ نااہل کروایا۔ اسی ن لیگ نے کاغذات نامزدگی سے 62/63 کو نکلوانے پر باقی جماعتوں اور تحریک انصاف سے دستخط کروالئے۔ گویا، عدالتی فیصلہ موجود نہ ہوتا تو نوازشریف دوبارہ پارٹی سربراہ بننے کے اہل ہوچکے اور اب الطاف حسین سمیت ہر وہ سیاستدان الیکشن لڑنے کا اہل ہوگیا جو کرپٹ، غدار، جرائم پیشہ ہونے کی وجہ سے کسی عدالت کے فیصلے کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑسکتا تھا۔ کیونکہ، تمام جماعتیں، امانت، صداقت اور دیانت کو انتحابی فارم سے نکالنے پر متفق تھیں۔
خیر، دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کے بعد یہ تبدیلیاں لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج ہوئیں تو جسٹس عائشہ ملک نے ان تبدیلیوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سابقہ انتحابی فارم کو برقرار رکھنے کا حکم سنا کر قوم کے دل جیت لیے۔ جس پر نگران وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے یہ کیس سپریم کورٹ لے جانے کا اعلان کیا۔ سپریم کورٹ نے اپنی ماتحت عدالت کا فیصلہ کینسل کرتے ہوئے ایک بیان حلفی بنانے اور اس میں وہ چیزیں شامل کرنے کا حکم دیا جو انتحابی فارم سے نکالی گئیں اور یوم قوم کو ماموں بنانے کا پراسس مکمل ہوا۔ کیونکہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد مجبوری کے عالم میں امیدواروں سے بیان حلفی تو لے لیا جائے گا لیکن اسے ویب سائٹ پر نہیں ڈالا جائے گا بلکہ پورا اہتمام کیا جائے گا کہ عوام کی اس پر نظر نہ پڑے۔ تاکہ ووٹر اپنے ایم این اے اور ایم پی اے کے جرائم سے بے خبر رہے۔ کاغذات نامزدگی میں تازہ واردات کے بعد آپ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ غیر تحریری طور پہ طے شدہ ہے کہ قانون سازی صرف بالادست طبقات کے مفاد میں کی جائے گی۔
کیونکہ، ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ ایسے حلف نامے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں ہر شہر کی کچہریوں میں تیار ہوتے ہیں اور اتنی وقعت بھی نہیں رکھتے کہ ایسے حلف نامے کی بنا پر کسی شخص کو عدالت بھی بلایا جاسکے کیونکہ یہ ایسے ہی ہے جیسے انتحابی امیدوار اشٹام پیپر خرید کر اس پر تحریر کرے کہ میں آرٹیکل 62 اور 63 پہ پورا ترتا ہوں اور کسی اوتھ کمشنر کو دس بیس روپے دے کر تصدیق کروائے اور کاغذات نامزدگی کے ساتھ جمع کرادے۔ جو لوگ ہمارے عدالتی نظام کو سمجھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس بیان حلفی پہ سزا ہونا دیوانے کا خواب ہے۔
بیان حلفی کی وقعت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اصغر خان کیس چل رہا ہے جس میں بے نطیر کی حکومت گرانے کے لیے آئی ایس آئی کی جانب سے اس وقت کے سیاسی اتحاد آئی جے آئی کے لیڈران کو رقوم ادا کی گئیں۔ جس میں پیسے دینے والے مرزا اسلم بیگ نے بیان حلفی دیا ہے کہ میں نے پیسے دیئے اور نوازشریف نے بیان حلفی دیا ہے کہ میں نے پیسے نہیں لیے. ان متضاد بیانات پہ بیان حلفی داخل کرنے کی مثال سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں بیان حلفی کے معاملے میں لوگ کتنے دیدہ دلیر ہیں۔ یعنی دونوں فریق اپنی اپنی بات پہ بیان حلفی دے رہے ہیں، کیا دونوں فریق سچ ہوسکتے ہیں؟
یہاں یہ تذکرہ بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ 2013 کے انتخابات کے کئی کیسز ابھی تک عدالتوں میں زیرسماعت ہیں جو کہ ظاہر ہے 2018 کے انتحابات سے پہلے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچیں گے۔ اگلے ماہ ہونے والے الیکشن کے بعد جہاں نہ صرف 2018 کے الیکشن میں غلط معلومات کی بنا پہ نااہل قرار دینے کے کیس سنیں جائیں گے وہیں ساتھ ساتھ الیکشن 2013 کے کیس بھی سنیں جاتے رہیں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو 2013 کے الیکشن میں نااہل ہوجانا چاہیئے تھا وہ نہ صرف پانچ سال حکومتی مراعات اور سیاسی فوائد لے چکے بلکہ 2018 کے انتحابات جیت کر دوبارہ اسمبلیوں میں جا چکے ہوں گے۔
قوم کا سادہ سوال یہ ہے کہ اگر اس مجوزہ بیان حلفی میں وہی تمام چیزیں ہیں جو نکالی گئی تھیں تو ان کو نامزدگی فارم سے نکالنے کا کیا مقصد تھا؟