تقسیم ہند 1947ء سے قبل ہندوستان میں 562 نوابی ریاستیں موجود تھیں جو کہ برطانوی ہندوستان کا حصہ نہیں تھیں جن میں سے صرف 14 ریاستیں پاکستان سے متصل تھیں۔ اس بنا پر ریاستوں کے الحاق کا مسئلہ ہندوستان کے لیے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔جب ہندوستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر دو واضح حصوں میں تقسیم ہوا تو قانون آزادی ہند 1947ء کی رو سے ہندوستان کی مقامی ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جغرافیائی حیثیت اور عوامی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرلیں۔
1947 ء میں ہندوستان کی تقسیم کے فوری بعد بہت تیزی سے تبدیلیاں آئیں اور سکم کے علاوہ تمام نوابی ریاستوں نے بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا یا انہیں فتح اور ان پر قبضہ کر لیا گیا۔1748ء میں ریاست جونا گڑھ (Junagadh State) کا قیام عمل میں آیا۔ 1807ء میں یہ برطانوی زیر حمایت ریاست بن گئی۔ 1818ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا لیکن سوراشرا کا علاقہ برطانوی راج کے انتظامیہ کے براہ راست تحت کبھی نہیں آیا۔ اس کے بجائے برطانیہ نے اسے ایک سو سے زیادہ نوابی ریاستوں میں تقسیم کر دیا، جو کہ 1947ء تک قائم رہیں۔ موجودہ پرانا شہر جو کہ انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران ترقی پایا سابقہ نوابی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ اس ریاست کے نواب کو 13 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ تقسیم ہند،(14 اگست 1947ء )، کے وقت اس ریاست کے نواب محمد مہابت خان جی سوم نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے جس پر بھارت نے شدید واویلا کیا۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے (15 ستمبر، 1947ء ) کو اس کی منظوری دے دی گئی۔ریاست جوناگڑھ چار ہزار میل پر مشتمل ہے ۔نواب کا مؤقف تھا کہ اگرچہ ریاست جوناگڑھ کا خشکی کا کوئی راستہ پاکستان سے نہیں ملتا مگر سمندر کے ذریعے یہ تعلق ممکن ہے کیونکہ اس ریاست کا کراچی سے سمند ری فاصلہ 480 کلومیٹر ہے۔اس ریاست کے ماتحت دوریاستیں تھیں (1)منگروال (2)بابری آباد۔ ان دوریاستوں نے اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا جس پر نواب جونا گڑھ نے ان دونوں ریاستوں کے خلاف فوجی کاروائی شروع کردی۔ان دونوں ریاستوں کے حکمرانوں نے حکومت ہندوستان سے مدد کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی ہندوستان نے 9 نومبر، 1947ء جب اس ریاست کے نواب کراچی میں قائد اعظم سے ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے، جوناگڑھ میں اپنی فوجیں داخل کردیں اور بزور قوت جوناگڑھ کو اپنی عملداری میں داخل کرلیا۔اس دوران ایک جلاوطن گروپ نے ایک عارضی حکومت قائم کی جس کا سربراہ سمل داس گاندھی (Samaldas Gandhi) کو مقرر کیاگیا جو مہاتما گاندھی کا بھتیجاتھا۔
سرحدوں کی حد بندی کے دوران ایک طرف برطانوی ماہر قانون ” ریڈ کلف “نے انتہائی جانب داری سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بد دیانتی کا مظاہرہ کیا، تو دوسری طرف بھارت نے بھی ریاستوں کے الحاق میں نت نئے مسائل کو جنم دیا۔ جنوبی ہند کی دو بڑی ریاستوں ٹراونکور اور حیدر آباد دکن نے خود مختار رہنے کا فیصلہ کیا، لیکن بھارت نے قانون آزادی ہند 1947ء کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ان ریاستوں پر قبضہ کر لیا۔ ظلم پر ظلم یہ ہوا کہ جوناگڑھ، مناوادر، منگرول اور کشمیر کی ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا، لیکن بھارت سرکار ان فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوئی۔
آج جونا گڑھ پر بھارتی تسلط اور ناجائز قبضے کو تقریباً 69 برس ہو چکے ہیں ، لیکن کراچی میں مقیم جوناگڑھی عوام بھارتی جبر و تسلط کو بھول نہ سکے۔ نواب مہابت خانجی کے پوتے نواب جہانگیر خانجی اب بھی جوناگڑھ کی آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔ انہوں نے چند سال قبل 15 ستمبر کو یوم الحاق جوناگڑھ کی مناسبت سے کراچی کے جوناگڑھ لان میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ میں اقتدار کا خواہش مند نہیں لیکن جوناگڑھ پر بھارت کی طرف سے کیے گئے ناجائز قبضے کے خلاف آواز بلند کرتا رہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کو خوشحال ملک دیکھنا چاہتا ہوں جس میں ریاست جوناگڑھ کا مدغم ہونا باعث اعزاز ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے پہل جونا گڑھ پاکستان کے نقشے پر کشمیر کی طرح شامل تھا مگر اب نجانے کیوں اسے پاکستانی نقشے سے نکال دیا گیا ہے۔پہلے تعلیمی نصاب میں بھی اسکا ذکر ملتا تھا اب وہ بھی نہیں ہے۔
ریاست جونا گڑھ کا معاملہ آغاز ہی سے سیاسی سردمہری کا شکار ہے۔ کشمیر کیلئے تحریک حریت پوری دنیا میں معروف ہے مگر جونا گڑھ کیلئے کوئی خاص اہتمام پاکستانی حکومتوں کی طرف سے نہیں کیا گیا۔ریاست جونا گڑھ کے نواب مہابت خان کے بعد ان کے بیٹے اور اب پوتے نواب محمد جہانگیر خانجی تک ایک ایسی مرکزی شخصیت ہیں کہ وہ خود اکیلے ایک تحریک حریت کی طرح ہیں۔ وہ ابھی تک اپنے استحقاق پر قائم ہیں اور جونا گڑھ کے الحاق کو ہی اپنی زندگی کا مقصد و منشاء سمجھتے ہیں۔ یہ معاملہ ان کی وجہ سے زندہ ہے۔ وہ جہاں ہوں جس محفل میں ہوں‘ نواب آف جونا گڑھ کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔ وہ پاکستانی ہیں اور جونا گڑھ کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے فروری 1971ء میں جونا گڑھ کے مسئلے کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک کرکے اقوام متحدہ میں پیش کیا تھا مگر اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ مسئلہ کشمیر بھی حل نہیں ہوا۔ عالمی برادری کا ضمیر اس معاملے میں مردہ ہوچکا ہے اور پاکستانی حکومتیں بے عملی کا شکار ہیں۔ دسمبر 1971ء میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو ایسے ہی جونا گڑھ بھی ایک بھولی بسری کہانی بن گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی تو کبھی مشرقی پاکستان کو یاد نہیں کرتے، جونا گڑھ تو پاکستان کا حصہ ہی نہیں بنا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کا راگ الاپنے والے اور امن کی آشا کی تحریک چلانے والے فارن فنڈڈ لوگ اس ملک کے باشندے کہلوانے کے مستحق نہیں ہیں۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اسلام آباد میں کشمیر ہاوس کی طرح جونا گڑھ ہاوس بھی قائم کیا جائے۔ تحمل اور تدبر کے امتزاج سے بنے ہوئے مزاج والے دھیمی اور مستحکم شخصیت کے مالک نواب محمد جہانگیر خانجی ایک پرامن ریاست کی طرح کے آدمی ہیں۔ ان کی شخصیت کسی طور بھی آزاد کشمیر سے کم نہیں۔ ان کے پاس زمین نہیں مگر زمانہ تو ہے۔ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں مگر ان کے وجود میں جونا گڑھ کیلئے آرزوئیں وجد کرتی ہیں۔ انہیں معلوم ہے اور یہ ان کہانیوں کے خمیر ضمیر میں ہیں۔ 4 ہزار میل پر پھیلی ہوئی ریاست کے ساتھ 100 میل کا سمندری ساحل واقع ہے جو کراچی سے صرف 200 میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ پاکستان کی تیسری بندرگاہ بھی بن سکتا تھا اور یہ گوادر اور کراچی سے کم بندرگاہ نہ ہوتی۔ یہ بات تجارتی مفادات کے علاوہ عسکری معاملات کیلئے کس قدر اہم ہوتی۔ پھر پاکستانی بحریہ بھارتی بحریہ سے بڑھ کر ہوتی۔
اب بھی جب پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت آتی ہے تو نواب صاحب کیلئے بھی اچھے دن آتے ہیں۔ ورنہ نواب آف جونا گڑھ کی حیثیت سے ان کیلئے مراعات وہی ہیں جو قیام پاکستان کے وقت تھیں اور وہ اتنی زیادہ نہ تھیں۔ اب اس صورتحال میں گزارہ مشکل ہے مگر نواب صاحب اپنے وقار اور اعتبار کے حوالے سے اس ضمن میں خاموش ہیں اور یہ بڑے لوگوں کی نشانی ہے مگر ہماری حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بڑے لوگوں کا خیال رکھیں اور اگر ان کے لیے اور کچھ نہیں کرسکتیں تو کم از کم انہیں پروٹوکول تو دیں تاکہ اسی بہانے جونا گڑھ کا مسئلہ بھی تازہ رہے۔
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
جونا گڑھ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی اہم یادگار بنائی جائے۔ اس وقت بھارت سے جونا گڑھ کے حوالے سے بات کرنا ضروری ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ جونا گڑھ کے مسئلے پر ہندوستان سے واضح مذاکرات کرے۔ تعلیمی اداروں میں جونا گڑھ کے طلبہ کے لیے مخصوص نشستیں مختص کی جائیں۔ کیونکہ جونا گڑھ نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کر کے بہت عظیم قربانی دی ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے افراد جونا گڑھ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ تعلیمی اداروں میں کوئی خاص مضامین نہیں رکھے گئے ،جو کہ قابل افسوس بات ہے۔ جونا گڑھ کے ایشو کو تازہ رکھنے کے لیے ایک میوزیم بنایا جائے جہاں پر جوناگڑھ سے متعلق چیزوں کو جگہ دی جائے۔
جوناگڑھ کے حوالے سے ایک قرارداد سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں اب بھی موجود ہے، پاکستان مسئلہ کشمیر کی طرح یہ معاملہ بھی عالمی سطح پراٹھائے جبکہ اقوام متحدہ بھارتی تسلط ختم کرائے کیونکہ نواب مہابت خان جی نے الحاق کے وقت دفاع ،خارجہ اور مواصلات کے شعبے پاکستان کے حوالے کیے تھے ۔نواب جہانگیر خان جی کے مطابق انہوں نے 2010 ء میں پاکستان کی وزارت خارجہ کو خط لکھا،جس کے جواب میں انہوں نے واضح کیاکہ ہم جوناگڑھ کومقبوضہ ریاست گردانتے ہیں اور اس مقدمے کی حمایت کرتے ہیں۔ 1972 کے صدارتی آرڈرمیں قیام پاکستان کے وقت موجود تمام ریاستوں کے حکمرانوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیالیکن جوناگڑھ کا مقدمہ مختلف ہے کیونکہ دیگر ریاستوں کی طرح اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ نہیں ہوسکا حالانکہ وہ آئینی طور پراس کاحصہ ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ مذاکرات کے ذریعے کسی بھی مسئلے کا حل جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ قیام پاکستان سے آج تک کی تاریخ گواہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی بھی مسئلہ بات چیت سے حل نہیں ہوا ماسوائے 1971ء میں جب نوے ہزار جنگی قیدیوں کا مسئلہ بھٹو صاحب نے نہایت دانشمندی سے حل کرایا ۔اس میں انکی سیاست کے ساتھ انکی خوش قسمتی کا بھی بڑا عمل دخل تھا کیونکہ اندرا گاندھی فتح کے نشے سے سرشار تھی اور اتنی بڑی تعداد میں قیدیوں کو سنبھالنا بھی ان کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھا۔ بہر کیف جو ہونا تھا ہو چکا۔ اب کشمیر ہو یا مناوا یا جونا گڑھ ، انکے حصول کے لیے ہمیں مذاکرات کی اہمیت سے انکا رنہیں مگر اسکی کامیابی کے لیے ہر طرح پہلے سے تیاری کرنا ہو گی۔ مذاکرات تب ہی کامیاب ہوتے ہیں جب طاقت کا توازن برابر ہو۔ہمیں مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ ریاست حیدرآباد اورجونا گڑھ کو بھی اُجاگر کرنیکی ضرورت ہے۔ آخر یہ ہمارے سیاستدان اور بیورکریٹ جو خود کو سقراط، بقراط اور افلاطون سمجھتے ہیں یہ کس دن کام آئیں گے؟ کیا یہ صرف عوام پر حکمرانی اور لوٹ مار کے لیے سیاست کرتے ہیں؟