لداخ ایک وسیع خطہ ارض ہے جو کشمیر کے شمال اور مشرق میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کے شمال مشرقی حصے پاکستان کے کنٹرول میں ہیں جب کہ جنوبی مشرقی حصہ بھارت کے زیر انتظام ہے؛ اور شمال مشرقی علاقے چین کے کنٹرول میں ہیں۔ اپنے محل و قوع کے لحاظ سے یہ خطہ تینوں ملکوں کے لیے سٹرٹیجک اہمیت رکھتا ہے۔
پچھلے سال کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے سے قبل لداخ بھارتی کشمیر کی حکومت کے تحت تھا۔ مگر اب اس کا انتظام و انصرام دہلی کی مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ لداخ کے شمال مشرقی علاقے چین کے کنٹرول میں ہیں، جن کی حدبندی پر ان دنوں چین اور بھارت کی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ اس سے قبل اسی نوعیت کی جھڑپیں 1960 کے عشرے میں بھی ہوئی تھیں۔
لداخ کا کل رقبہ 45 ہزار مربع میل یعنی ایک لاکھ 17 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اس کے جنوب مشرق میں لداخ رینج، کراکرم رینج اور دریائے سندھ کے بالائی کے علاقے شامل ہیں۔ پاکستان کی جانب یہ گلگت بلتستان سے جا ملتا ہے۔ کارگل اور سیاچن اسی حصے میں واقع ہیں، جسے دنیا کا بلندترین محاذ جنگ کہا جاتا ہے۔
لداخ دنیا کے بلند ترین علاقوں میں شامل ہے۔ یہاں انتہائی بلندی پر وسیع میدان اور انتہائی گہری وادیاں پائی جاتی ہیں۔ بلند سطح مرتفع کے علاقے زیادہ تر مشرق میں ہیں، جب کہ مغرب کی جانب بڑھتے ہوئے میدان بتدریج کم ہونا اور پہاڑی سلسلے بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جنوب مشرقی علاقے میں تقریباً ساڑھے 13 ہزار فٹ کی بلندی پر جھیلوں کا سلسلہ ہے جو شمال مغرب میں زاسکار رینج تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں کا موسم انتہائی سرد ہے۔ آبادی کم ہے۔ لوگوں کا گزر بسر مویشی پالنے پر ہے۔ سال کا زیادہ تر حصہ انہیں اپنے مویشیوں کے ساتھ گھروں کے اندر گزارنا پڑتا ہے۔
دریائے زاسکار اسی علاقے میں بہتا ہے جو شمال مغرب کی جانب بڑھتا ہوا لہہ کے قریب دریائے سندھ سے مل جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس سمجھوتے کے تحت یہ دریا پاکستان کے حصے میں آتا ہے۔ تاہم، پانی کی تقسیم پر چند برسوں سے دونوں ہمسایہ ملکوں میں اختلافات بڑھ رہے ہیں۔
لداخ کے بالائی حصے میں زیادہ تر بستیاں اور گاؤں 9 ہزار سے 15 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہیں۔ یہاں زیادہ تر بکریاں پالی جاتی ہیں، جن سے اون حاصل ہوتی ہے۔ زیادہ بلندی کی وجہ سے یہاں کاشت کاری کرنا مشکل ہے۔
لداخ کا سب س اہم قبصہ لہہ ہے، جو سری نگر سے 260 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ لہہ لداخ کے سب سے اہم کاروباری مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔
انتہائی بلندی پر ہونے کے باوجود لداخ کا موسم زیادہ تر خشک رہتا ہے۔ یہاں بارش کی سالانہ اوسط تقریباً تین انچ ہے۔ یہاں بارش نہیں ہوتی، مگر برف خوب پڑتی ہے۔ مقامی نباتات میں زیادہ تر جنگلی جڑی بوٹیاں اور درخت ہیں، جنہیں مقامی آبادی آگ جلا کر کھانا پکانے اور خود کو گرم رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ زیریں علاقوں میں گندم، جوار، دالیں وغیرہ کاشت کی جاتی ہیں۔ اونی کپڑا اور اس کے ملبوسات یہاں کی دستکاریوں میں شامل ہیں۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق لداخ کی آبادی ایک لاکھ 33 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ جن میں بودھ تقریباً 70 فی صد، 17 فی صد ہندو اور 11 فی صد مسلمان ہیں۔
لداخ کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں سے آس پاس کے علاقوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان لداخ کی سرحد کا باضابطہ تعین نہیں ہے۔ اور متنازع علاقے پر دونوں ملک دعویدار ہیں۔ حالیہ عرصے میں بھارت نے وہاں بڑے پیمانے پر سڑکیں، چوکیاں اور فوجی اہمیت کی تنصیبات تعیمر کی ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ بھارتی فوجی اس کی سرحد کے اندر گھس آئے تھے، جنہیں نکالنے کے لیے اس نے کارروائی کی ہے۔