کراچی: پاک سرزمین پارٹی کے رکن نیشنل کونسل اور ڈپٹی مئیر کراچی ارشد وہرا نے کہا ہے کہ میئر نے جاری اسکیموں پر 4 ارب روپے کیوں خرچ کیے۔
ارشد وہرا نے کہا ہے کہ پاکستان ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ میئر کراچی وسیم اختر نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے حزب روایت اختیارات اور وسائل کی عدم دستیابی کا رونا رویا جبکہ عوام یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنی 2 سالہ کارکردگی بتائیں گے اور جن منصوبوں پر فنڈز خرچ ہوئے ہیں اس کی تفصیل سے آگاہ کریں گے اور اپنی کارکردگی بتانے کے بجائے آج یہ بتا رہے ہیں کہ4 ارب روپے جاری اسکیموں پر خرچ کیے لیکن اگر آپ لوگوں کو یاد ہو کہ اکتوبر میں جب بلدیاتی نمائندوں نے چارج لیا تھا تو سندھ حکومت نے بلدیاتی حکومت پر کیے جانے والے سیمینار میں صاف کہا تھا کہ جاری اسکیموں پر لوکل گورنمنٹ کو کچھ خرچ نہیں کرنا ہوگا اور وہ سب سندھ حکومت کی ذمے داری ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی کارکردگی صفر ہے انھوں نے پہلے سال صرف صحت پر 600 ملین روپے رکھے تھے جوکہ اس بار فنڈز کی کمی کی وجہ سے 300 ملین کردیے گئے۔
ڈپٹی میئر نے کہا کہ ایک طرف میئر کراچی کہتے ہیں کہ ایڈمنسٹریٹرز نے عوامی نمائندوں کی غیر موجودگی میں ان کی نمائندگی نہیں کی اور شہر کا برا حال کردیا تو پھرمیئر کراچی نے انہی ایڈمنسٹریٹرز کی جاری اسکیموں پر 4 ارب روپے خرچ کیوں کیے، کیا شہر میں 43کروڑ روپے جو نالوں کی صفائی پر خرچ ہونے تھے ان سے نالوں کی صفائی کی گئی یا وہ بھی کرپشن کی نذر ہوگئے۔
ارشد وہرا نے بتایا کہ میئر نے خود نالوں کی صفائی کے کام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا تو پھر اس کام کے لیے رقم جاری کیوں کی، 43 کروڑ میں سے 7 کروڑ روپے نہر خیام پر خرچ ہوئے جسے سندھ گورنمنٹ نے روک دیا اور اس طرح عوام کے فنڈز ضایع کیے گئے، اس پر شہریوں کو جواب کون دے گا پچھلے 2 ماہ میں 40 کروڑ روپے کے فنڈز میں سے ہر یو سی کو 2 ، 2 کروڑ روپے سڑکوں کی استرکاری کے لیے دیے جانے تھے لیکن ان میں سے صرف 18سے20 لاکھ روپے دے کر یوسی چیئرمینوں سے جان چھڑالی گئی۔
ڈپٹی میئر نے کہا کہ یوسی چیئرمینوں کو پوچھنا چاہیے کہ 10ارب روپے کہاں خرچ ہوئے پچھلے سال جو فنڈز دیے گئے ان کا کیا استعمال ہوا اور یو سی چیئرمینوں کو کتنے فنڈز ملنے چاہیے تھے ان کا حق کیا ہے ان کو پتہ ہونا چاہیے یہ ساری معلومات بھی کے ایم سی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہونی چاہیے۔
ارشد وہرا نے کہا کہ کے ایم سی کے پاس جو 28 محکمے ہیں جن میں سے ذیادہ تر ریونیو جنریٹ کرنے والے محکمے ہیں جیسے کہ چارجڈ پارکنگ، لوکل ٹیکسز وغیرہ جو اگر ایمانداری کے ساتھ چلائے جائیں تو کے ایم سی کو سنبھالنے کے لیے کافی ہیں لیکن ان اداروں کے ریونیو کا کہیں ذکر نہیں نہ ہی ان سے حاصل کردہ رقم کہاں خرچ کی گئی اس کا ذکر کیا جاتا ہے کیا میئر بتاسکتے ہیں کہ ان سے کتنا ریونیو جمع کیا جارہا ہے اور بڑھانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
دپٹی میئر کا کہنا تھا کہ شہریوں کی خدمت کے نام پر لیے جانے والے فنڈز میں خوردبرد کر کے عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جارہا ہے لہٰذا ہم پاک سر زمین پارٹی کے پلیٹ فارم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ چیف جسٹس پاکستان، ڈی جی نیب اور چیئرمین اینٹی کرپشن میئر کراچی کی کرپشن کا نوٹس لیں اورگزشتہ 2 سال میں جاری شدہ فنڈز کا کسی آڈٹ کمپنی سے آڈٹ کرایا جائے تاکہ عوام کے سامنے حقائق آ سکیں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو بطور ڈپٹی میئر کراچی میں اپنا فرض سمجھتے ہوئے قانونی طریقے سے عوام کے سامنے حقائق لانے کے لیے آڈٹ کرانے سمیت تمام تر عملی اقدامات کرتا رہوں گا ۔
اس موقع پر کراچی ڈویژن کے صدر آصف حسنین نے کہا کہ کراچی کا میئر ایک کرپٹ آدمی ہے جو رات کو 10 بجے کے بعد نظر نہیں آت، اس لیے جب ان سے آج ترقیاتی منصوبوں کی فہرست مانگی گئی تو انھوں نے ترقیاتی منصوبوں کی تفصیل کے بجائے بتایا کہ 4 ارب جاری منصوبوں پر استعمال کیے گئے ہیں آج اخراجات تو ہو رہے ہیں لیکن ایک کام بھی نظر نہیں آرہا سارا پیسہ جیبوں میں جارہا ہے۔
آصف حسنین نے کہا کہ ہم کراچی کے عوام کا پیسہ اتنی آسانی سے کھانے نہیں دیں گے ہم نیب سے درخواست کریں گے کہ ایک ایک پیسے کا حساب لیں اور آڈٹ کراکر میئر کی کرپشن کو بے نقاب کیا جائے فاروق ستار نے جو الزام میئر پر لگائے تھے تو آپ اتنی آسانی سے جان نہیں چھڑاسکتے آپ کو بھی اس کا جواب دینا ہوگا وفاقی حکومت نے جو فنڈز دینے تھے وہ دے چکی ہے اب الیکشن کمیشن کی طرف سے نئے منصوبوں پر پابندی لگا دی گئی ہے یہ لوگ شہریون کو دھوکا دے رہے ہیں۔