آدمی کی شخصیت سازی میں جغرافیے کا بھی خاصا ہاتھ ہوتا ہے۔ مثلاً موجودہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ہی لے لیجیے۔آپ کا گاؤں چکری عظیم گندھارا تہذیب کے بدھست مرکز ٹیکسلا کے دائرے میں آتا ہے۔
چنانچہ آپ کی شخصیت میں بھی یہاں کی مٹی میں بسی بودھ اصولوں کی خوشبو پائی جاتی ہے۔ ‘نہ برا سنو ، نہ برا کہو ، نہ برا دیکھو۔’
ایسی ملنگ مٹی سے اٹھا کوئی حساس شخص جب دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ کی قیادت بھی کر رہا ہو اور کوئی اس کی نیت پر بال برابر شک کرے تو نہ صرف اسے بلکہ مجھ جیسے بہی خواہوں کو بھی صدمہ تو ہوتا ہے۔کجا یہ کہ کوئی اعلیٰ جج کسی تحقیقاتی رپورٹ کی شکل میں چوہدری صاحب ایسے رقیق القلب کے سر پہ پوری اینٹ ہی دے مارے۔
یہ ٹھیک ہے کہ اس سال آٹھ اگست کو کوئٹہ میں 50 وکلا سمیت 71 افراد کی ہلاکت کے دہشت گردانہ سانحے کے اسباب اور ذمہ داری کے تعین کے لیے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسی پر مشتمل کمیشن نے صرف 56 دن میں جامع رپورٹ مرتب کر کے شائع کردی ۔مگر اس میں وفاقی وزارتِ داخلہ کے لتے لیتے ہوئے یہ خیال بھی نہیں کیا گیا کہ نرم خو وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خاں کا کوئٹہ کے واقعات سے کیا لینا دینا؟ وہ تو پچھلے ڈھائی برس میں بمشکل ڈھائی بار ہی کوئٹہ گئے ہوں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حکمتِ عملی کے بارے میں وفاقی وزارتِ داخلہ میں قیادت کا بحران اور کنفیوژن پایا جاتا ہے۔
مثلاً پچھلے ڈھائی برس میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی ( نیکٹا ) کی ایگزیکٹو کمیٹی کا صرف ایک اجلاس ہوا اور بورڈ آف گورنرز کا ایک اجلاس بھی نہیں ہوا ۔ٹھیک ہے ایسا ہی ہوا ہوگا۔لیکن کمیشن یہ بھی تو دیکھے کہ جب چوہدری صاحب وزیرِ داخلہ بنے تو اس وقت نیکٹا میں صرف چھ افسر تھے۔آج ماشااللہ پورے 26 ہیں۔
نیکٹا کے چیرمین کہتے ہیں کہ ہمیں انسدادِ دہشت گردی کی مربوط و موثر حکمتِ عملی بنانے کے لیے کم ازکم آٹھ سو اہلکار درکار ہیں۔اب اگر یہ تعداد چوہدری نثار علی کو ہی پوری کرنی ہے تو مستقبل کے وزرائے داخلہ پھر کیا کریں گے؟
کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مذہبی شدت پسندی میں ملوث پر تشدد تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کا کیا فائدہ جب ان تنظیموں کے رہنما وزیرِ داخلہ سے مل بھی سکتے ہوں اور اپنے مطالبات بھی منوا سکتے ہیں۔اس بارے میں کمیشن نے کالعدم اہلِ سنت والجماعت کے رہنما مولانا محمد احمد لدھیانوی سے چوہدری صاحب کی ملاقات اور پھر اس تنظیم کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت دینے کی مثال دی ہے۔
مگر چوہدری صاحب نے بھی نہایت خندہِ پیشانی سے جواب دیا کہ مولانا لدھیانوی بھلے کالعدم جماعت کے رہنما اور فورتھ شیڈول کے تحت زیرِ نگرانی ہوں لیکن وہ دفاعِ پاکستان کونسل کے وفد میں شامل ہو کر آئے تھے اور دفاعِ پاکستان کونسل بہرحال کالعدم نہیں ہے۔ اب اگر لدھیانوی صاحب آ ہی گئے تھے تو کیا میں یہ کہتا کہ آپ واپس چلے جائیں۔ ( کوئی مروت ہوتی ہے، کوئی مشرقیت ہوتی ہے، کوئی تمیز تہذیب ہوتی ہے)۔
اور جہاں تک کالعدم اہلِ سنت والجماعت کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت دینے کا سوال ہے تو نہ انھوں نے اجازت مانگی نہ ہم نے دی۔اجازت دینا نہ دینا کیپٹل انتظامیہ کا اختیار ہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ کیپیٹل انتظامیہ بھی براہ ِ راست وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہے۔ مگر یہ آج سے تھوڑا ہے۔
یوں بھی جلسے کی اجازت ایک مقامی مولانا نے طلب کی تھی۔ اب اگر مولانا صاحب کا تعلق اہلِ سنت والجماعت سے تھا تو انہیں اخلاقاً یہ بات چھپانی نہیں چاہیے تھی۔وزارتِ داخلہ ہر ایک کے دل کا حال تو جاننے سے رہی۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بارڈر کنٹرول کے نظام کو بھی سخت سخت سناتے ہوئے کہا کہ ایک جانب تو یہ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی لگ بھگ سب ہی وارداتوں کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہے۔ مگر مغربی سرحد پر بارڈر کنٹرول کا یہ عالم ہے کہ روزانہ ہزاروں افراد آتے اور جاتے ہیں لیکن کسی کا ریکارڈ کسی ادارے کے پاس نہیں۔
یہ بھی محض اتفاق ہے کہ بارڈر کنٹرول اور امیگریشن وغیرہ بھی وزارتِ داخلہ کے تحت ہیں۔ مگر یہ آج سے تھوڑا ہے۔
اتفاق سے نادرا بھی وزارتِ داخلہ کا ذیلی ادارہ ہے۔ جب افغان پوسٹر گرل شربت گلے نے کہا کہ اس کا شناختی کارڈ جعلی ہے تو کیا ہم نے اسے ڈی پورٹ کرنے میں ذرا بھی دیر لگائی؟ اب اگر کوئی شخص اپنا شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنواتے ہوئے یہ نہ بتائے کہ اس کا اصل نام ملا اختر منصور ہے تو غریب وزارتِ داخلہ کیا کرے؟
مزید ستم یہ کہ جج بھی وزارتِ داخلہ کے ہی کان مروڑے اور ایجنسیاں بھی۔
اب آپ کو اندازہ ہوا کہ حکومتیں کمیشن بنا کر ان کی رپورٹوں پر کڑک مرغی کی طرح کیوں بیٹھ جاتی ہیں۔ یہ رپورٹیں تھوڑی ہوتی ہیں، کارِ سرکار میں سیدھی سیدھی مداخلت ہوتی ہیں۔اگر یونہی بے جا تحقیقاتی مداخلت ہوتی رہے گی تو پھر ریاست بھی عدالت ہی چلا لے؟