لاہور(ویب ڈیسک)غربت اور قرض میں ڈوبے ہوئے گھر میں بیرون ملک سے کوئی امیر کبیر رشتے دارآجائے تو چراغاں ہوجاتا ہے، توقعات ویسے ہی بلند ہو جاتی ہیں، بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارے اسی طرح کے عزیر رشتہ دار ہیں۔ عمران خان نے بھی وزیراعظم بننے سے پہلے کہاتھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے وطن میں
معروف صحافی محمد اسلم خان اپنے کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی حکومت کے دعووں پر بیرون ملک مقیم پاکستانی کچھ زیادہ خوش دکھائی نہیں دے رہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان کی ٹیم کا انتخاب اور معاشی حکمت عملی بنی ہوئی ہے۔سمندرپارپاکستانیوں کی وزارت کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی تعداد 76لاکھ ہے۔ ان میں سے تقریبا 40 لاکھ مشرق وسطیٰ میں رہائش پزیر ہیں جبکہ 15 لاکھ برطانیہ میں رہتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد آباد ہے اور ان میں سے کئی دولت کے کھیل میں گوروں کو بھی مات دے چکے ہے۔ اقوام متحدہ کے محکمہ اقتصادیات اور سماجی امور کے مطابق بیرونی دنیا میں رہائش پزیر چھٹی سب سے بڑی تعداد پاکستانی باشندوں کی ہے۔ 2017ء میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے دوہزار ایک سو سینتیس ارب روپے پاکستان بھجوائے تھے جو 20 ارب امریکی ڈالرز بنتے ہیں۔
جن علاقوں پر آج کا پاکستان وجود میں آیا ہے، تاریخی اعتبار سے یہاں کے باشندوں کی ہجرت اور سفر کا سلسلہ تین ہزار قبل مسیح سے جاری ہیں۔ ہڑپہ کے تاجر ’عراقی تمدن‘ یعنی ’میسوپوٹیمیا‘ کے تاریخی شہر جاتے رہے ہیں۔ وادی مہران کی تہذیب کے یہ مختلف آثار تاریخ دانوں نے محفوظ کررکھے ہیں۔ تاریخ بدلتی رہی، زمانے بدلتے رہے، گھڑی کی سوئیاں چلتی چلی گئیں لیکن یہاں کے باشندوں کا سفر رکانہ تھما۔سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاسپورٹ کا حصول آسان بنا کر بیرونی دنیا کے دروازے پاکستانیوں پر کھول دئیے پاکستانیوں کی بڑی تعداد رزق روزی کی تلاش میں، اپنے اور اپنے گھر والوں کا مقدر سنوارنے کی خاطر بیرون ملک گئی۔وزیراعظم عمران خان تبدیلی کے نعرے کے ساتھ آئے ۔ ان سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی بھاری توقعات وابستہ ہیں۔ عمران خان آرزو مند ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ان کی بھرپور مدد کریں۔ وہ یہ مددتربیت یافتہ، پیشہ وارانہ مہارت اور اہلیت کے حامل پڑھے لکھے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے بھی طلب کررہے ہیں جو اپنی صلاحیت، مہارت اور تجربے سے ان کی مدد کریں دوسری جانب وہ عملی تعاون بھی چاہتے ہیں جو براہ راست سرمایہ کاری، کاروباری منصوبہ جات کے آغاز کے ساتھ ساتھ براہ راست عطیات کی شکل میں ہو۔ یہ عطیات انہیں ڈیم کی تعمیر سمیت دیگر منصوبہ جات کے لئے درکار ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں بیرون ملک پاکستانیوں کو مدد کے لئے پکارنے والے عمران خان پہلے فرد نہیں۔ 1997ء کے اوائل میں اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے ’قرض اتارو، ملک سنوارو‘ کی انقلابی سدا بلند کی تھی تاکہ ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ سے نجات پالے۔ اس اپیل کا بھرپورجواب دیاگیا تھا، خوب ہلہ گلہ اور رونق میلہ رہا لیکن عملی تعاون کم رہا کیونکہ لوگ جانتے تھے کہ جو کچھ وہ عطیات کی صورت دے رہے ہیں اس نے جلد ہی ایسا غائب ہونا ہے کہ پھر ان پیسوں کا سرے سے کوئی نام ونشاں بھی نہ مل پائے گا۔پھر ایک سال بعد بھارت نے دوسری مرتبہ جوہری دھماکے کردئیے۔ پاکستان نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ چاغی کے جوہری تجربات کے بعد نوازشریف نے ایک بارپھر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو آواز دی کیونکہ پاکستان پر عالمی پابندیاں لگ چکی تھیں۔ 2000ء میں سندھ اور بلوچستان میں قحط ، 2005ء کے تباہ کن زلزلے، 2012 کے تباہ کن سیلاب۔۔ ایک کے بعد ایک آفت نے ہمیں گھیرا۔۔ ایک بار پھر بیرون ملک مقیم پاکستانی مدد کے لئے آگے بڑھے۔
اب ذرا تصورکریں کہ آپ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں اور بیرون دنیا سے بیٹھ کر پاکستان کو دیکھ رہے ہیں تو حقائق کچھ یوں دکھائی دیتے ہیں ملکی برآمدات جو ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں اور خسارے کو لگام دینے کا ناگزیر پہلو ہے، اس میں کمی کا سامنا ہے جو تجارتی خسارے کی صورت ہمارے بجٹ اور معاشی ڈھانچے کی چولیں ہلارہا ہے۔ ہماری آمدن کا براہ راست ذریعہ یعنی ٹیکس سکڑ رہے ہیں۔ پراپیگنڈہ کہیں یا حقائق لیکن تاثر یہی ہے کہ سیاستدان اور بیورکریٹس امیرترین ہوگئے ہیں۔ غریب’ غریب سے غریب تر ہورہا ہے۔ مڈل کلاس مٹتی چلی جارہی ہے۔ مڈل کلاس تو ایسا طبقہ فقیراں ہے کہ یہ بیچارے تو احتجاج بھی نہیں کرتے۔ انہوں نے مستقل چپ کاروزہ رکھ لیا ہے۔ہماری عالمی حالت یہ ہے کہ پاکستان کے اتحادیوں یا ساتھ دینے والوں کوبلاشبہ انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ جہاں سے کچھ امید تھی وہاں کے بارے میں بھی اطلاعات، ابہام، شکوک وشبہات نے ماحول بنانے کے بجائے خراب کرنے میں زیادہ کردار ادا کیا ہے۔ اب حالات کو کچھ سنبھالا ملا تو ہے لیکن اب بھی اعتماد کی وہ فضاء نہیں جو دراصل درکار ہے۔
بیرون ملک رہنے والے شکوہ کناں ہیں کہ قومی اورملکی سطح پر کفایت شعاری کبھی پالیسی نہیں بن سکی، البتہ دکھاوے کی چیز بن کر رہ گئی ہے جس کا استعمال آن کی آن میں ہوا، ایک آندھی چلی اور پھر تھم گئی۔ اصل مرض کا علاج کرنے کے بجائے ٹامک ٹوئیاں جاری رہتی ہیں۔ کسی مستقل راستے، حکمت عملی سے کوسوں دور۔ باہر بیٹھے یہ کہتے نہیں ہچکچاتے کہ 40 سال سے ملک تنزلی کا شکار چلاآرہا ہے اور اس ملک کی سول سروس اور سیاسی اشرافیہ کو اپنے مفادات سے فرصت نہیں۔بلاشبہ عمران خان ایک ایماندار شخص کی شہرت رکھتے ہیں جس کی بناء پر انہیں ایک قابل اعتبار اور قابل اعتماد فرد تصور کیاجاتا ہے۔ اس بارے میں بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کسی قسم کا کوئی شک نہیں کہ وہ پاکستان کے لئے کچھ اچھا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عام آدمی کی زندگی کیا ہے ؟ اس کا ادراک عمران خان کو کیا ہے؟ وہ خود ایک امیر خاندان میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انہیں عام آدمی کی زندگی کی تلخیوں اور کلفتوں کا شاید پوری طرح اندازہ نہیں۔