ہمارا ملک دہشت گردی و انتہاء پسندی کے کینسر سے دوچار ہے۔ ویسے تو یہ مرض پرانا ہے مگر گزشتہ 15 برسوں میں یہ خاصازور پکڑ چکا ہے۔ ابتداء میں تو کچھ مخصوص گروہ اس کی لپیٹ میں تھے، یہ ملک کے طول و عرض میں نہیں پھیل پایا تھا مگر گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے اس نے ملک کے کونے کونے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پہلے ہمارے معاشرے میں انتہاء پسندی اور اقلیت و اکثریت، مسلکی و لسانی تفرقات تنازعات کی صورت میں وقتاً فوقتاً ابھر کر سامنے آجاتے تھے جس کا شکار چند افراد ہوا کرتے تھے، مگر اب شدت پسندی بلا تفریق اس قدر بڑھ چکی ہے کہ یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ کسے معتدل سمجھیں اور کسے انتہا پسند جانیں؟
اگر ماضی بعید میں جھانکا جائے تو ہمارے تعلیمی ادارے اور ان میں پڑھنے پڑھانے والے طلبا و اساتذہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی پر مبنی نظریات کے حامل نظر آتے تھے۔ لیکن ماضی قریب میں دہشت گردی نے ملک گیر سطح پر جس شدت سے اپنے اثرات مرتب کیے ہیں، اس سے ماضی میں روشن خیالی کے مینار تصور کیے جانے والے بھی خود کو محفوظ رکھ پاتے نظر نہیں آرہے۔
اس دہشت گردی و انتہا پسندی کے باعث نہ صرف اس ملک کو بلکہ یہاں کے عوام کو بھی بہت بڑا جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے، جس کا مداوا تو ممکن نہیں مگر اس ناسور سے جان چھڑانے کےلیے مختلف اوقات میں متعدد چھوٹے بڑے، عسکری و نیم عکسری آپریشنز ضرور کیـے گئے، جن کی کامیابی یا ناکامی سے متعلق حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر اس حوالے سے دعوے اور بیانات کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ ضرور چل نکلا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ عملاً تاحال ممکن نہیں ہو پایا ہے، اور یہ چیلنج آج تک جوں کا توں برقرار ہے۔
بحیثیت قوم ہم نے اس ختم نہ ہونے والی جنگ کے سنگین نتائج بھگتے ہیں۔ اس جنگ کا سب سے بھیانک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی و انتہاء پسندی کے اثرات نے نہ صرف سادہ لوح اور ان پڑھ لوگوں کو متاثر کیا، بلکہ اب تو پڑھا لکھا طبقہ بھی اس رجحان سے محفوظ نہیں رہا۔
چند ماہ قبل عیدِ قرباں کے موقعے پر سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن پر حملہ ہوا، جس میں ملوث ملزم حسان نذیر داؤود یونیورسٹی میں لیب انجنیئر تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ ملزم اسی یونیورسٹی کا طالب علم بھی رہا ہے۔
اسی طرح گلستان جوہر میں ڈی ایس پی ٹریفک کریم آباد پر جبکہ سائٹ اور بہادر آباد میں پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث گروہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل پایا گیا۔ گروہ کے سربراہ اور اراکین این ای ڈی اور کراچی یونیورسٹی کے علاوہ برطانوی تعلیمی ادارے سے گریجویٹ ہونے کے ساتھ ساتھ آئی ٹی ماہر بھی بتائے گئے ہیں۔ یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ملوث ملزمان انصارالشریعہ نامی دہشت گرد گروہ میں شامل ہیں۔ اس بات کی نشاندہی ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی اور ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل محمد سعید اپنی پریس کانفرنسز میں بھی کرچکے ہیں۔ ڈی جی رینجرز سندھ کا کہنا تھا کہ دہشت گرد گروہ انصارالشریعہ پڑھے لکھے نوجوانوں پر مشتمل ہے جس میں شامل 7 نوجوانوں کا تعلق کراچی سے ہے جبکہ ان میں سے دو جامعہ کراچی کے شعبہ اپلائیڈ فزکس سے فارغ التحصیل ہیں۔
ویسے تو دہشت گرد کارروائیوں میں طلبا کے ملوث ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں، مگر اب ان واقعات کی فہرست میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
فروری 2002 میں وال اسٹریٹ جرنل کے پاکستان میں رپورٹر امریکی صحافی ڈینیئل پرل کو اغوا کرکے قتل کردیا گیا۔ واقعے کامرکزی کردار شیخ عمر لندن اسکول آف اکنامکس سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔ اس حملے کے ٹھیک دو سال بعد کراچی میں کور کمانڈر کے قافلے پر حملہ ہوا- حملے میں ملوث کالعدم تنظیم جنداللہ کے کئی دہشت گرد جامعہ کراچی اور دوسرے تعلیمی اداروں کے سند یافتہ نکلے۔ بعد ازاں تحقیقات سے پتا چلا کہ دورانِ طالب علمی ہی سے ان کا تعلق مذہبی طلبا تنظیم سے ہوچکا تھا۔
2005 میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں القاعدہ سے تعلق رکھنے والا آئی ٹی ماہر صبور خان عرف ابو طلحہ گرفتار ہوا جس کے سر پر امریکی حکومت کی جانب سے 50 لاکھ ڈالرز انعام مقرر تھا۔ جسٹس باقر کے گھر پر حملے سمیت دیگر کئی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث عظیم شیخ کا تعلق کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی سے تھا۔ عظیم شیخ الیکٹرونکس انجنیئرنگ میں سند یافتہ تھا۔ حیدرآباد کا رہائشی عظیم شیخ اپنے ساتھیوں سمیت 2013 میں گرفتار ہوا۔
سانحہ صفورا گوٹھ میں ملوث دہشت گرد سعد عزیز اور علی رحمان عرف ٹونا بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں جن کا تعلق داعش سے بتایا گیا ہے۔ گزشتہ سال منگھوپیر میں پولیس مقابلے میں ہلاک دہشت گرد کامران عرف گجر بھی سند یافتہ تھا، اس کا تعلق بھی دہہشتگرد تنظیم داعش سے بتایا جاتا ہے۔
رواں سال گلستان جوہر میں ڈی ایس پی ٹریفک فیض محمد شگری پر کیے گئے حملے میں ملوث دہشت گرد حذیفہ آئی ٹی ماہر تھا۔ منگھوپیر کے علاقے میں پولیس اور حساس اداروں کی مشترکہ کارروائی میں ہلاک ہونے والے حذیفہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کے ساتھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں جو اس وقت افغانستان میں مقیم ہیں۔
بات یہیں نہیں رکتی، نورین لغاری کا دہشت گرد تنظیم سے تعلق اور مردان یونیورسٹی میں مشال خان کے سفاکانہ قتل جیسے بدترین واقعات ہماری آنکھیں کھولنے کےلیے کافی ہونے چاہئیں کہ کس طرح مسیحائی کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیم میں شمولیت اختیار کرلیتی ہے۔ باچا خان یونیورسٹی کے طالب علموں نے کس بے رحمی اور سفاکی سے مشال خان جیسے ہونہار طالب علم کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
سوچنے والے ہر ذہن میں یہ سوال لازماً اٹھتا ہوگا کہ آخر وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے پڑھے لکھے لوگ انتہاء پسندانہ سوچ کی جانب مائل ہو رہے ہیں؟ اگر سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو کئی اسباب سامنے آجائیں گے۔
سچ تو یہ ہے کہ انتہاء پسندانہ سوچ کی بنیاد 1980 کی دہائی میں ڈالی گئی جب تعلیمی اداروں میں طلبا یونینوں (اسٹوڈنٹ یونینز) پر پابندی لگا کر نوجوانوں کو طلبا سیاست سے دور کیا گیا۔ اسی کے ساتھ تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں لاکر انتہاء پسندانہ سوچ کو فروغ دیا اور اس کے ذریعے مائنڈسیٹ تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔
ایک سبب یہ بھی ہے کہ داعش جیسی کالعدم تنظیمیں اور دہشت گرد گروپوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے سوشل میڈیا ویب سائٹس کے ذریعے متاثر ہوکر ان تشدد پسند تنظیموں کا رخ کرنا شروع کردیا۔
ان تمام اسباب کے ساتھ میڈیا کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اگر میڈیا پر نشر اور شائع ہونے والے مواد کا بغور جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ کس طرح مخصوص بیانیے کو فروغ دیا جارہا ہے۔
دراصل بات یہ ہے کہ طلبا سیاست پر پابندی لگانے، نصابی مواد کو خاص رخ دینے اور بدلتے حالات کے مطابق پالیسیاں مرتب نہ کرنے کے باعث نوجوان نسل جہالت کے اندھے کنویں میں گر رہی ہے، جس سے نکلنا ناممکن نہ سہی مگر بہت مشکل ضرور ہے۔
تعلیمی اداروں سے انتہاء پسندانہ سوچ کے خاتمے کےلیے ترقی پسند سیاست اور صحت مندانہ سرگرمیاں وقت کا تقاضا ہیں۔ اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹوڈنٹ یونینز کو فی الفور بحال کیا جانا چاہیے تاکہ نوجوان نسل ہتھیار کے بجائے قلم کے ذریعے جنگ لڑے۔