لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔سچی بات تو یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور شیخ رشید احمد کی لفظی لڑائی میں شیخ صاحب کو تو سمجھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی روکا جا سکتا ہے، البتہ بلاول صاحب کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے قد کاٹھ کو ابھی سے خراب نہ کریں، ایسی کسی جنگ میں نہ پڑیں جو ان کے امیج کو عوام کی نظر میں بگاڑ دے۔ شیخ رشید احمد نے تو سیاست کی تمام بہاریں دیکھ لی ہیں، ان کی کسی بات کا تو نوازشریف نے بھی کبھی جواب نہیں دیا۔ شہباز شریف بھی ان کے ذکر پر نو کمنٹس کہتے ہیں، ایسے میں بلاول بھٹو زرداری کو کیا پڑی ہے کہ ان پر پھبتیاں کسیں، انہیں برا بھلا کہیں، حتیٰ کہ سیاست کے گٹر سے تشبیہ دیں۔ وہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین ہیں، انہیں کم از کم اپنے معیار سے گرنا نہیں چاہئے۔ان کے پاس سعید غنی، ناصر شاہ، مولا بخش چانڈیو اور چودھری منظور احمد جیسے جیالے موجود ہیں ،وہ چاہیں تو شیخ صاحب کے ساتھ جواب آں غزل چھیڑ سکتے ہیں، بلاول بھٹو زرداری سے تو لوگ شائستگی کی توقع رکھتے ہیں، نجانے انہیں کس نے شیخ رشید احمد کو ایسے جوابات دینے کی راہ دکھائی ہے۔ وہ شاید اس نکتے کو بھول گئے ہیں کہ ایسی باتوں سے شیخ رشید احمد کا کچھ نہیں بگڑے گا، بلکہ ان کا سیاسی قد ایک بڑی سیاسی جماعت کے چیئرمین جیسا ہو جائے گا۔ شیخ رشید احمد تو اندر سے بہت خوش ہیں کہ ان کے تیر نشانے پر لگ رہے ہیں وہ بلاول بھٹو زرداری کے لئے بِلو رانی کی اصطلاح تو کئی برسوں سے استعمال کر رہے ہیں،
مگر آصف علی زرداری یا بلاول بھٹو زرداری نے کبھی اس کا جواب نہیں دیا، لیکن اب یکایک ایسا کیا ہوا کہ بلاول بھٹو زرداری نے شیخ رشید احمد کو نشانے پر لے لیا ہے، یہ تو سراسر نقصان کا سودا ہے۔بلاول بھٹو زرداری تو اپنا موازنہ عمران خان سے کرتے تھے اور ٹھیک کرتے تھے کہ وہ بھی اپنی پارٹی کے چیئرمین ہیں اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی موثر آواز بھی، یہ تو شیخ صاحب کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی تنقید کا رخ عمران خان سے ہٹا کر اپنی طرف موڑنے میں کامیاب رہے ہیں۔ مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری جیسے نوجوان اور مستقبل میں پاکستانی سیاست کے ممکنہ اہم ترین رہنما نے خود کو اس لڑائی میں ملوث کر لیا ہے جو شیخ رشید احمد اور رانا ثناء اللہ کی سطح پر چل رہی ہے ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف سخت اور بڑی حد تک غیر معیاری زبان استعمال کرتے ہیں تو حیرت نہیں ہوتی کہ یہ سلسلہ تو عرصہ دراز سے چل رہا ہے، لیکن بلاول بھٹو زرداری نے شیخ رشید احمد کو برا بھلا کہہ کر کم از کم مجھے تو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس حیرت میں افسوس بھی شامل ہے
اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ اگر بلاول بھٹو زرداری بھی گالم گلوچ کی سیاست پر اتر آتے ہیں تو ہم یہ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ مستقبل کی سیاست آج کی سیاست سے بہتر ہو جائے گی؟ پھر تو یہ سلسلہ گویا اگلی نسل تک چلے گا۔ پہلے ہی مراد سعید جیسے نوجوان سیاست دانوں نے سیاست کو لفظی گرم بازاری کا پر تو بنایا ہوا ہے۔ فواد چودھری بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ فیاض الحسن چوہان کے ڈنکے بھی بج رہے ہیں۔ اُدھر مسلم لیگ (ن) میں یہ محاذ رانا ثناء اللہ، طلال چودھری اور مریم اورنگ زیب نے سنبھالا ہوا ہے، پیپلزپارٹی کے جیالے بھی کسی سے پیچھے نہیں، ایسے میں اگر پارٹیوں کے قائدین بھی اس تماشا گاہ میں اتر جاتے ہیں تو پھر باقی کیا رہ جائے گا؟ شیخ رشید احمد کی سیاسی محاذ آرائی تو مشہور ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو شاید علم نہیں کہ شیخ صاحب ان کی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کے بارے میں بھی رطب اللسان رہتے تھے۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جب آدمی نے اپنا سیاسی قد کسی بڑے قد آور سیاستدان کے مقابل لانا ہو تو اسے اپنے نشانے پر رکھ لے۔ ایک زمانے میں ایسی کوششوں پر ’’ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ‘‘ جیسے طعنے دیئے جاتے تھے۔
شیخ صاحب عرف فرزند لال حویلی چونکہ میڈیا کو استعمال کرنا جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ریٹنگ بڑھانے کے لئے ٹی وی چینلز روزانہ دھواں دھار اور چٹ پٹی خبر کے متلاشی رہتے ہیں،اِس لئے وہ ہر روز کوئی شوشہ ضرور چھوڑتے ہیں۔ یہ درحقیقت ان کا ایک جال ہوتا ہے جس میں وہ کبھی شہباز شریف اور کبھی بلاول بھٹو زرداری کو لانا چاہتے ہیں، شہباز شریف تو اب بہت جہاں دیدہ ہو گئے ہیں، ایسے جال میں نہیں آتے اور انہوں نے عرصہ ہوا شیخ رشید احمد کی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ حالانکہ شیخ رشید احمد روزانہ ہی انہیں نوازشریف سے بڑا مجرم قرار دیتے ہیں اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے پر انہیں طرح طرح کے القابات سے نوازتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری غالباً جذبات میں آکر شیخ رشید احمد کے بچھائے ہوئے جال میں آ گئے۔ بلاول بھٹو زرداری کی زبان سے شیخ رشید احمد کے لئے ایسی باتیں اس لئے بھی اچھی نہیں لگیں کہ شیخ صاحب عمر میں ان سے بہت بڑے ہیں، بلکہ شاید آصف علی زرداری سے بھی بڑے ہیں بلاول بھٹو زرداری کو ان کی بزرگی کا ہی خیال رکھنا چاہئے۔ وہ جو بھی کہتے رہیں، اس سے بلاول بھٹو زرداری پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا، مگر جب وہ شیخ رشید احمد پر جملے کسیں گے تو نقصان انہیں ہی پہنچے گا۔
ان کے والد آصف علی زرداری اپنی سیاست کو حد درجہ نقصان پہنچا چکے ہیں اور وہ سیاسی جماعت جو چاروں صوبوں میں موجود تھی، اب اندرون سندھ کی جماعت بن چکی ہے۔ اگلا سیاسی ریلہ اسے کہاں پہنچاتا ہے، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں پیپلزپارٹی کے پاس ایک ایسا الہ دین کا چراغ موجود ہے، جو کوئی بھی معجزہ دکھا سکتا ہے، مگر یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے ،جب بلاول خود کو روائتی سیاست کی دلدل سے محفوظ رکھیں۔ اگر ان کے پاؤں بھی اس دلدل میں دھنس جاتے ہیں تو پیپلزپارٹی یہ امید نہ رکھے کہ مستقبل میں کوئی کرشمہ ہو جائے گا اور یکدم عدم مقبولیت کی شکار پیپلزپارٹی مقبولیت کے بام عروج پر پہنچ جائے گی۔ ایسے معجزے سیاست میں کم ہی ہوتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری جب دھمکی آمیز بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں تو ان کی باڈی لینگوئیج ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ نہ ہی وہ حقیقت سے قریب نظر آتی ہیں۔ بیرون ملک جانے سے پہلے ان کی زبان پر صرف ایک ہی جملہ رہا کہ اٹھارویں ترمیم ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو دمادم مست قلندر ہو گا۔ چلیں یہ ان کا سیاسی بیان ہو سکتا ہے
اور شاید آج کل کے تناظر میں اپنا دفاع کرنے کے لئے پیپلزپارٹی کے پاس اور کوئی دلیل ہے بھی نہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بارے میں حکومت نے کبھی یہ عندیہ نہیں دیا کہ اسے ختم کرنے جا رہی ہے، البتہ اس میں چند تبدیلیوں کی بات ضرور کی جاتی رہی ہے۔ پھر یہ ترمیم دو تہائی اکثریت کے بغیر ختم نہیں ہو سکتی، وہ حکومت کے پاس نہیں ہے تو پھر یہ ترمیم مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی کے بغیر کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ اس جھنجھلاہٹ میں شاید بلاول بھٹو زرداری شیخ رشید احمد کی تنقید پر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے۔ انہوں نے اپنا دہن بگاڑ لیا، حالانکہ اس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ رانا ثناء اللہ اور پیپلزپارٹی کے دوسرے رہنما آئے روز شیخ رشید احمد کو سخت جواب دیتے ہیں، زبان دونوں طرف سے لڑکھڑا بھی جاتی ہے، لیکن اس کا اتنا سنجیدہ نوٹس نہیں لیا جاتا، مگر بلاول بھٹو زرداری نے شیخ رشید احمد کے خلاف جو شعلے اگلے ہیں، اس کی تپش خود پیپلزپارٹی کے اندر بھی محسوس کی گئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو بادشاہ نوشیرواں عادل کا وہ واقعہ یاد رکھنا چاہئے، جب اس نے ایک شہر فتح کیا تو اس میں سیبوں کا ایک باغ بھی تھا۔ سپہ سالار نے نوشیرواں عادل سے پوچھا کہ کیا آپ کے لئے سیب توڑ کر لائے جائیں۔ نوشیرواں عادل نے سختی سے منع کیا اور کہا کہ بادشاہ کے لئے ایک سیب توڑا گیا تو سپاہیوں نے پورا باغ اجاڑ دینا ہے۔ اگر بلاول بھٹو زرداری اپنی زبان قابو میں نہیں رکھیں گے تو ان کے وزراء شاہ سے وفاداری میں آخری حدیں تک پار کر جائیں گے۔ جیسا کہ بلاول کے بیان کے بعد سندھ کے صوبائی وزراء نے شیخ رشید احمد پر مغلظات کی بھرمار کر رکھی ہے۔ا نہیں تو اس طوفانِ بدتمیزی کے آگے بند باندھنا چاہئے ناکہ خود اس کا ہراول دستہ بن جائیں۔