ہم بھلے ہی کتنے معزز اور معاملہ فہم کیوں نہ ثابت ہو جائیں، مگر ہمارے اندر جستجو کا مادہ اتنا ہی بھرپور رہتا ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ “بوریت کا علاج تجسس ہے مگر تجسس کا کوئی علاج نہیں”۔ تجسس ہمارا ایسا عمومی رویہ ہے جسے ہم ہر جگہ اپلائی کر دیتے ہیں، آپ اس “ذوق” کے حامل لوگوں کی محفل کا حصہ بنئیے، یہ آپ کو فلمی ستاروں کے “بریک اپ ” سے “پیچ اپ” تک کی کہانی بیان کر دیں گے۔ پھر ذرا اس “ذوق” کا رخ بدلیں اور ملکی وسیاسی حالات کی طرف موڑ دیں تو آپ ایسے اچھنبے اور مصالحہ دار رازوں سے واقف ہوں گے، جسے ہمارے سیاست دان بھی سن کر ششدر رہ جائیں۔ قدرت نے تجسس کا مادہ ہر انسان میں رکھا ہے مگر اس کا استعمال، نفع و نقصان، مفید غیر مفید کا فہم وادراک بھی دیا ہے۔ میں نے ایسے بے شمار افراد دیکھے ہیں جو تجسس کے بعد من گھڑت جواب بنا لیتے ہیں اور اس کے بعد تسلی و تشفی حاصل کر لیتے ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ تجسس کیے بغیر ان کا گزارہ بھی نہیں۔
بنیادی طور پر انسان کی گروتھ جس کائنات میں ہوئی ہے وہ خود متجسس ہے۔ اگر انسان کی نظر اور غور و فکر کو کسی ایک قانون فطرت کی طرف لگا دیا جائے تو رازوں سے بھرا خزانہ اس کے ہاتھ لگ جائے۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے فکر کی سمت صحیح راستے پر رواں نہیں ہے، ہم سوچتے ہیں تو لوگوں کے بارے میں،احوال دریافت کرتے ہیں تو بھی اپنی دلچسپی کے لیے، اور اگر ہمیں بات کرنے کے لیے موضوع مل جائے تو بھی ’لوگ‘ ہمارے تبصروں سے محفوظ نہیں رہتے۔ ایسے مقامات کے بارے میں پڑھتے اور دیکھتے ہیں جن میں ہمیں کبھی جانا بھی نہیں ہوتا۔ اگر آپ کبھی اپنے تجسس کا جائزہ لیں تو آپ کی عقل بھی دنگ رہ جائے، ہمیں لوگوں کے کہیں آنے جانے پر سوال ہے، کوئی اپنی پسند تبدیل کر لے تو دریافت کیئے بغیر رہ نہیں پاتے اور تو اور ہر چیز میں ہمیں “سازش” نظر آتی ہے۔
اصل میں ہمیں چیزوں کے جواب پانے سے محبت ہے، اگرچہ وہ ہمارے لیے فائدہ مند نہ بھی ہو۔پہلے پہل روز مرہ زندگی کی یہ عادت کہیں ملک در ملک پرواز کر کے نہیں پہنچتی تھی، اور اب تو سوشل میڈیا پر جوابات کا ایک لمبا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایک جدید سروے کے مطابق 94 فیصد لوگ سوشل میڈیا اس لیے استعمال کرتے ہیں، تاکہ وہ جان سکیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں اور کیا کررہے ہیں۔ آپ تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھ لیں جب بھی انسان کے تجسس نے صحیح جگہ پر آواز بلند کی ہے، دنیا میں کوئی نئی کامیابی وجود میں آئی ہے۔ سیب کا زمین پر گرنا بے شمار لوگ مدت سے دیکھتے ہیں، مگر نیوٹن کے “کیوں” کا تجسس ایک تاریخی نظریہ قائم کر دیتا ہے۔ اگر ہم اپنے تجسس کا صحیح استعمال کریں تو ہم بھی زندگی میں بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں اور دوسروں کے لیے چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔ تجسس ہمیں بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑاتا چلا جا رہا ہے،اور ہم کہیں اپنی ذات کی اتھاہ گہرائی میں اپنے آپ سے محروم ہیں۔ قدرت کی رعنائیوں کے باوجود ہم ویران ہیں، اور پھر کہتے ہیں ہمیں اللہ نہیں ملتا!
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اب ایسے قوانین اور نظام متعارف کروا رہے ہیں،جن کامقصد شہریوں کے حالات زندگی کو فوکس کرنا ہے، اگر چہ یہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر اور امن قائم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے، مگر بنیادی طور پر انسان کسی حد تک اپنی فطرت سے بھی مجبور ہے۔ خدارا اپنی جستجو کا محور اپنی ذات پر لگائیں۔ بڑا آسان سا کلیہ ہے کہ نہ تو آپ اپنے فطرتی تجسس کو ختم کریں اور نہ ہی لوگوں سے کٹ کر رہ جائیں، بلکہ جتنا “غیر ضروری” آپ تک پہنچ جائے،اس پر آگاہ ہو جائیں، جو رہ جائے اسے نہ کھوجیں۔ لوگوں کے متعلق آپ کے تجسس سے ان کی زندگیوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انسان وہی کرتا ہے جو وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے درست سمجھ رہا ہوتا ہے۔ چناچہ اپنے تجسس کو وہ غذا فراہم کریں جو آپ کی بھوک مٹائے اور فائدہ مند ہو۔ کیونکہ فیض یاب ہونے والے ہی فیض بانٹ سکتے ہیں۔