اسلام آباد (ویب ڈیسک) سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہاہے کہ ٹرمپ چاہتے تھے کہ طالبان خفیہ طور کیمپ ڈیوڈ آکر معاہدے پر دستخط کریں لیکن طالبان چاہتے تھے کہ معاہدے پر دستخط دوہا میں کئے جائیں ، اس سے طالبان امریکہ مذاکرات معطل ہوئے۔جیونیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“میں گفتگو کرتے ہوئے مشاہدحسین سید نے کہا کہ مسئلہ کشمیر دنیا میں اہمیت حاصل کرچکاہے ،محمد بن سلمان کے جنگ سے متعلق رویے میں فرق آیاہے ۔انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے فیصلہ کرلیاہے کہ اس کا مستقبل افغانستان میں امن سے وابستہ ہے اور افغانستان میں امن کا راستہ اسلام آباد یا براستہ راولپنڈی سے جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ا س وقت مقصد مذاکرات کوبحال کرناہے ، پاکستان کو اس وقت کافی چیلنجز کا سامنا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ چاہتے تھے کہ طالبان خفیہ طور کیمپ ڈیوڈ آکر معاہدے پر دستخط کریں لیکن طالبان چاہتے تھے کہ معاہدے پر دستخط دوہا میں کئے جائیں ، اس سے طالبان امریکہ مذاکرات معطل ہوئے ۔مشاہد حسین سید کا کہنا تھاکہ افغان طالبان کو اسلحہ ایران دے رہاہے ، سپورٹ چائنہ دے رہا ہے جبکہ ان کا استقبال روس کی جانب سے کیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے پہلے پاکستان کے خلاف ٹوئٹ کیا اور اب کہتے ہیں کہ بہترین دوست ہوں ، امریکہ سے اب پاکستان پر وہ دباﺅ نہیں آئے گا جو پہلے آتا تھا ۔جبکہ دوسری جانب ایک خبر کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے افغان طالبان کے وفد نے ملاقات کی ،ملاقات میں افغان امن عمل اور سیاسی مفاہمت پر تبادلہ خیال کیا گیا اس کے علاوہ افغانستان کے سیاسی مستقبل سے متعلق بھی بات چیت ہوئی ،اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اورڈی جی آئی ایس آئی بھی موجودتھے،میڈیا رپورٹس کے مطابق بی بی سی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان سے افغان طالبان کے وفد نے وزیراعظم ہاﺅس میں ملاقات کی،افغان طالبان کے وفد کی قیادت ملا برادر نے کی ۔ملاقات میں افغان امن عمل اور سیاسی مفاہمت پر تبادلہ خیال کیا گیا اس کے علاوہ افغانستان کے سیاسی مستقبل سے متعلق بھی بات چیت ہوئی ،اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اورڈی جی آئی ایس آئی بھی موجودتھے،واضح رہے کہ طالبان کے وفد نے آج صبح وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بھی ملاقات کی تھی جس میں افغان امن عمل کی جلد بحالی پر اتفاق کیا گیا۔