اخباراٹھایا تو نظر ایک خبر پر ٹک سی گئی، خبر تھی کہ پاکستان میں ہر دوسری عورت گھریلو تشددکا شکار ہے۔ یہ خبر پڑھ کر میرے ذہن میں وہ سوال ابھرا جو عورت چاہے وہ ماں، بیٹی، بہن یا بیوی ہو‘ کے ذہن میں ابھرتا ہے کہ عورت ہمیشہ مظلومیت کی تصویر بنی کیوں نظر آتی ہے؟ کیوں ہمیشہ عورت ہی قربان ہو کر مردوں کی اَنا کو زندگی دیتی ہے۔ آخر کب تک مرد کے ظلم اور عورت کی مظلومیت کا قصہ زبان زدِ عام رہے گا۔
اگر ذکر کریں ازدواجی زندگی کا تو شادی وہ خوبصورت رشتہ ہے جو میاں بیوی کے باہمی حسنِ سلوک سے پروان چڑھتا ہے مگر یہ خوبصورت رشتہ بھی اکثر و بیشتر عورت کے لئے سزا بن جاتا ہے۔ بعض اوقات مرد کی ناجائز حاکمیت اور جھوٹی اَنا ظلم اور تشدد کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور اس خوبصورت رشتے کو بھیانک سزا بنا دیتی ہے۔ ہمارے ہاں توعورت کی مظلومیت کے اَن گنت قصے سننے کو ملتے ہیں۔ کہنے کو ہم مسلمان اور جمہوری قوم ہیں لیکن کیا اسلام اور جمہوریت ہمیں یہ سبق دیتے ہیں؟ انتہائی افسوس سے کہنا پڑے گا کہ ہم اب تو محض نام ہی کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ کیونکہ جو حقوق خواتین کے اسلام میں ہیں، ہم ان میں سے کسی ایک کی بھی پاسداری نہیں کرتے۔ اور جہاں تک پاکستان کے آئین اور قانون کے حوالے سے عورت کے حقوق اور ان کی حفاظت کی بات ہے تو اس معاملے میں بھی ہمیں حقوق نسواں کی پاسداری ہوتی نظر نہیں آتی۔
حکومت پنجاب نے عورتوں پر تشدد کے حوالے سے بہت سے قوانین پاس کئے ہیں مگر افسوس حکومت نے شاید ان بلزکو محض پاس ہی کروانا تھا ان پر عمل درآمد کروانا شاید ان کا کام نہیں تھا۔ حکومت کو محض ووٹ لینے کے لئے مختلف اقدامات کرنے کی روایت سے نکل کر لوگوں کے بنیادی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لئے بھی ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہو گا کہ حکومت اپنی کرسی بچائے یا عوام کو دیکھے۔ ہم اب اس لولی لنگڑی حکومت کو کیا کہیں۔ ہائے یہ حکومت… پاناما اقامہ سنبھالے یا عوام کے مسائل؟ حکمران محض اقتدار میں آنا جانتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد اپنے فرائض کو بھول جاتے ہیں۔
لگتا ہے کہ حکومت نے اپنے ساتھ ساتھ دوسرے اداروں کو بھی ایزی رکھنے کا ٹھیکا اٹھا رکھا ہے۔ اگر ہم محکمہ پولیس کو ہی دیکھیں تو یہاں جان کی حفاظت کرنے والے ہی ہر فرض سے اپنی جان چھڑاتے نظر آتے ہیں۔ اگر پولیس کا رویہ عوام دوست ہوتا تو شاید خواتین اپنے اوپر ہونے والے ظلم و تشدد کے انسداد کے لیے پولیس سے رجوع کرتیں مگر جب انہیں گھر سے زیادہ پولیس کے تشدد سے خوف ہو تو کون باہر جا کر شکایت لگائے گا؟
پاکستان میں خواتین کے ساتھ تشدد کے واقعات میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں گزشتہ سالوں کے مقابلے میں 12 فیصد اٖضافہ ہوا ہے۔ پناجاب جینڈر پیریٹی رپورٹ 2017ء کے مطابق 2014-15ء کے برعکس 2016ء میں خواتین کے خلاف تشدد کے 7,313 کیسز دیکھنے میں آئے اور پنجاب میں ان تشدد کے واقعات کی تعداد پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق خواتین کو مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جیسا کہ ریپ، قتل، مار پیٹ، تیزاب پھینکنے کے واقعات، جسمانی اور نفسیاتی ٹارچر… ایسے دردناک طریقوں سے عورتوں کی شخصیت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور سب کنارے کھڑے تماشا دیکھنے میں مصروف ہیں۔
شاید انہیں ادراک ہی نہیں کہ عورت ہر روپ میں عزت کی حقدار ہے اور کوئی بھی معاشرہ اس وقت مضبوط نہیں ہو سکتا جب تک وہاں کی عورت مضبوط اور محفوظ نہیں۔ اگر ہماری عورتیں ریپ، مار پیٹ، قتل، جسمانی اور ذہنی تشدد جیسے واقعات کی نذر ہوتی گئیں تو ایک دن یہ معاشرہ اندر سے مکمل طور پر کھوکھلا ہو جائے گا۔ جہاں حکومت اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین کا مقام معاشرے میں محفوظ اور مضبوط بنائیں وہیں ہمیں بھی اپنے حصے کی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے عورت کو ہر روپ میں عزت واحترام اور اس کا جائز مقام دینا ہو گا تاکہ ہم ایک مضبوط معاشرہ تشکیل دے سکیں۔