کائنات میں ہمیں ان گنت چیزیں، مناظر اور کرشمے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک راز سورج کے ساتھ سورج مکھی کے پھول کے لگاؤ کا بھی ہے۔ یہ پھول دن بھر افق پر چمکنے والے سورج کے اشاروں پر چلتا ہے اور ہمیشہ سورج کے ساتھ اپنا رخ تبدیل کرتا ہے۔
اس بات کو لے کر سائنس دان حیران تھے کہ کیوں سورج مکھی کا پودا ہر روز ابھرتے سورج کے ساتھ سارا دن اس کی روشنی کا پیچھا کرتا ہے اور شام میں سورج کی آخری جھلک پانے کے لیے پوری طرح سے اپنا رخ مغرب کی سمت موڑ لیتا ہے۔
جبکہ رات میں سورج کی غیر موجودگی میں یہ پھول واپس مشرق کی سمت میں اپنا رخ موڑے رکھتا ہے اور سورج کی واپسی کا انتظار کرتا ہے اور بالغ یا بڑا پھول بننے تک ایسا کرتا ہے۔
لیکن سورج مکھی کے پودے یہ کس طرح کرتے ہیں یہ اب تک ایک راز ہی رہا ہے۔
بالآخر علم نباتات کے ماہرین نے اس بات کا جواب بھی ڈھونڈ نکالا ہے جن کا کہنا ہے کہ یہ سورج مکھی کے پھول کی سورج کے ساتھ محبت کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ‘ہیلیو ٹروپزم ‘ یا کسی پودے کی نشوونما کے دوران اس پر پڑنے والی سورج کی روشنی سے متاثر ہونے کا رجحان ہے۔
تاہم ماہرین یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیوں سورج مکھی کا نیا پھول سورج کا پیچھا کرتا ہے اور کیوں بالغ پودا بن جانے پر سورج مکھی کا پھول سورج کی پیروی کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
محققین نے ظاہر کیا کہ جب سورج مکھی پودا مکمل طور پر نمو پا جاتا ہے اور بعض صورتوں میں انسانوں کے قد جتنا لمبا ہوجاتا ہے تو سورج کے رخ پر حرکت کرنا بند کر دیتا ہے اور زیرہ پاشی کرنے والے کیڑوں کو متوجہ کرنے کے لیے اپنا رخ ہمیشہ مشرق کی طرف رکھتا ہے۔
تحقیقی جریدے ‘سائنس’ میں شائع ہونے والی تحقیق میں سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ سورج مکھی کے پھول کی اندرونی گھڑی سرکیڈین ردھم اور روشنی کا پتہ لگانے کی صلاحیت مل کر کام کرتی ہے اور نشوونما سے متعلق جینز کو صبح کے وقت میں سورج کے رخ کے ساتھ جھکنے کی اجازت دیتی ہے۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ڈیوس میں پلانٹ حیاتیات کے شعبے سے وابستہ محققین پروفیسر اسٹیسی ہارمر اور پروفیسر ہائیگوپ ایٹ ایمین اور ان کی ٹیم نے کھیتوں، گملوں اور نمو کے چیمبر میں سورج مکھی پر اپنا مطالعہ مکمل کیا ہے۔
سائنس دانوں کے لیے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری تھا کہ سورج کی روشنی کا پیچھا کرنے کا فائدہ کیا ہو سکتا ہے لہذا تجربات کے ایک سلسلہ میں انھوں نے بیرونی گملوں میں سورج مکھی کے پودوں کو باندھ کر سورج کی روشنی سے باخبر رہنے سے روکا۔
نتیجے کے طور پر یہ پودے سورج کے رخ پر مڑنے والے سورج مکھی کے پودوں کےمقابلے میں کم بڑھے تھے اس کا صاف مطلب تھا کہ سورج کی ٹریکنگ نے پودوں کی نشوونما کو فروغ دیا تھا۔
دوسری طرف ایک حقیقت یہ بھی تھی کہ سورج مکھی کا پودا رات میں اپنی سمت تبدیل کرتا ہے اور مغرب سے واپس مشرق کی سمت اپنا رخ موڑ لیتا ہے جس سے محققین کو پتا چلا کہ پودے کی اندرونی گھڑی اس کی ذمہ دار ہے۔
ایک دوسرے تجربے کے دوران محققین نے سورج مکھی کے پودے کو کمرے میں سورج سے ملتی جلتی روشنی اور اندھیرے کے حالات میں رکھا جس سے ان کو پتا چلا کہ پودوں کا رویہ چوبیس گھنٹے کے دن کے عین مطابق تھا۔
تاہم جب آوٹ ڈور سورج مکھی کے پودوں کو کمرے کی مصنوعی روشنی میں رکھا گیا تو انھوں نے چند دنوں تک مشرق سے مغرب کی سمت جھکنے کا عمل جاری رکھا جس کا صاف مطلب تھا کہ چوبیس گھنٹے کی سرکیڈین ردھم سورج کی حرکت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
ماہرین نباتات کے لیے یہ جاننا بھی ضروری تھا کہ ان پودوں نے بنا پٹھوں کے یہ حرکت کیسے کی تھی۔
لیکن انھیں معلوم ہوا کہ اس کا جواب سورج مکھی کے پودے کے تنوں میں تھا۔
انھوں نے کہا کہ دوسرے پودوں کی طرح سورج مکھی کے پودا کے تنے بھی رات کے وقت میں بڑھتے ہیں لیکن صرف ان کی مغرب کی سمت میں، جو دن میں پودے کو مشرق کی طرف جھکنے کے قابل بناتا ہے۔
جبکہ دن کے دوران تنا مشرق کی طرف بڑھتا ہے، جو شام میں سورج کے ساتھ مغرب کی طرف جھکتا ہے۔
محقق کو معلوم ہوا کہ سورج مکھی کے پودے میں روشنی کا پتہ لگانے اور نشوونما سے متعلق مختلف جینز تھیں جو تنوں کے برعکس سائیڈ پر فعال ظاہر ہوئی تھیں۔
اور اب محققین کے لیے یہ پتا لگانا باقی تھا کہ کیوں سورج مکھی کا بڑا پودا اپنا رخ ہمیشہ مشرق کی طرف رکھتا ہے؟
اس بات کے جواب میں محققین کو پتا چلا کہ مشرق کا سامنا کرنے والے پودے زیادہ گرم اور زیرہ پاشی کرنے والے کیڑوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے تھے۔
محققین نےخیال ظاہر کیا کہ سورج مکھی کے چھوٹے پودے مشرق کی ترجیح کے ساتھ بڑھتے ہیں اور بالغ پودے بھی مشرق کی طرف اپنی سمت کو برقرار رکھتے ہیں کیونکہ صبح کے وقت میں گرم ہونا پودوں کو فائدہ فراہم کرتا ہے، جہاں یہ بڑے پھول زیرہ پاشی کرنے والے کیٹروں یا شہد کی مکھی کا انتظار کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے بیجوں کو پھیلائیں اور نئے سورج مکھی کے پودے اُگائیں اور پھر یہ سورج مکھی کے نئے پھول اسی طرح سے سورج کا پیچھا کریں۔