آپ نے اپنے اردگرد ایسے افراد ضرور دیکھے ہوں گے جو جہاں بیٹھتے ہیں مولوی کے خلاف بات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ مولوی کو معاشرے میں ہونے والی ہر برائی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں لیکن ایسا کہتے ہوئے وہ اپنے گریبان میں جھانکنا بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنی ذاتی زندگیوں میں کیا کر رہے ہیں۔
دہشت گردی کا سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک داڑھی والے کا خاکہ بن جاتا ہے اور تشدد کا ذکر سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک مولوی کا ہی خیال آتا ہے۔
ایک معاشرے میں موجود تمام برائیاں اس معاشرے کے تمام طبقوں کے مختلف افراد میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں۔ علماء اور مذہبی طبقہ بھی اسی معاشرے کا ایک حصہ ہیں۔ جو برائیاں دوسرے لوگوں میں موجود ہوں گی وہ ان میں بھی ہوں گی اور انکی پکڑ بھی بہت ضروری ہے پر اسکا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مذہب کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائیں یا اس طبقے کے سب افراد کو بلاوجہ کی تنقید کا نشانہ بنائیں۔
ہم ذہنی طور پر منافق ہیں۔ منافقت ہماری رگوں میں خون کی مانند شامل ہو چکی ہے جو کہ ہمارے نوجوانوں کو الجھن میں مبتلا کر رہی ہے۔ ہم اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم پر لاکھوں روپیہ اڑا دیتے ہیں پر قرآن پڑھانے کے لیے ایسی مسجد ڈھونڈھتے ہیں جہاں فی سبیل اللہ قرآن پڑھایا جارہا ہو۔
گلی محلے کی مسجد کے پیش امام جن کی کوئی مستقل آمدنی نہیں ہوتی، جب اپنی محرومیوں کا حساب معاشرے سے مانگتے ہیں تو ہم چیخ اٹھتے ہیں کہ یہ تو لالچی ہیں۔
ہم اپنے ہر کام کے لیے شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں اور جب یہ شارٹ کٹ ہمیں ہمارے مطلوبہ مقام تک نہیں لے کر جاتا تو الزام ہم راستہ بتانے والے پر لگا دیتے ہیں۔ قرآن ہم کھول کر نہیں دیکھتے، حدیث ہم سننے کی زحمت نہیں کرتے، پھر کسی نذرانہ لینے والے مولوی کو پکڑ کر اپنی مرضی اور منشا کے فتووں پر خوش ہوتے پھرتے ہیں اور اگر ہماری مرضی کا فتویٰ نہ آۓ تو “جاہل مولویوں” پر تنقید کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔
اس پر ہمارے امراء کی شان نرالی ہے کہ جو صبح میں مولوی حضرات کو گالیاں دیتے ہیں پھر شام کو کسی مرشد کے دَر پراپنے گناہوں کا سودا کرتے ہیں کہ پیسوں کے ساتھ اپنے گناہ بھی ان کے سر دھر آیئں تاکہ رات کو بے فکر ہو کر نائٹ پارٹیوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔
یہاں یہ بات ماننا بھی ضروری ہے کچھ لوگ مذہب کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں واقعی انتشار، فرقہ واریت اور بدامنی پھیلاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو زیادہ سخت سزا ملنی چاہئیے جو مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں مگر اس سلسلے میں ہمارا آنکھیں موند کر سارا الزام پورے طبقے پر دھر دینا کہاں کا انصاف ہے؟ اسکی مثال بلکل ایسی ہے کہ ہم بغیر تحقیق کیے کسی عطائی کے پاس جائیں اور پھر نقصان کی صورت میں سب ڈاکٹروں کو گالیاں دیتے پھریں۔
اس سلسلے میں سب سے یہی درخواست ہے کہ دوسروں کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانے سے بہتر ہے کہ خود مذہب کا اتنا بنیادی علم رکھیں کہ آپکو کسی ملا کے فتوے کی ضرورت نہ رہے یا پھر صحیح فہم والے انسان کی پہچان ہو سکے۔ لیکن اگر ہمیں پھر بھی ان لوگوں سے نفرت محسوس ہو یا مذہب سے بےزاری ہو تو اصول پسند ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ نماز جمعہ کی امامت امام کی بجائے خود کروائیں۔ دین سے بےزاری ہو تو وصیت کر جائیں کہ ہماری نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے اور بالفرض پڑھوانی بھی ہو تو کسی پادری سے پڑھوائی جائے۔