جب پاکستانی وزیراعظم نوازشریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے امریکی سرز مین پر
اترے، عین اسی وقت مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے پاس ’اڑی‘ کے مقام پر بھارتی فوج کے ہیڈکوارٹر پر حملہ اور اس کے نتیجے میں 17 فوجیوں کی ہلاکتوں کی خبر لے کر بھارتی ٹیلی ویژن چینلز چیخنے چنگھاڑنے لگے۔
اس حملے کے بعد نئی دلّی کی وزارت دفاع اور وزارت داخلہ نے ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس حملے کے پیش نظر روس اور امریکہ کا دورہ منسوخ کردیا اور ہذیان کے سے انداز میں کہا کہ ’’پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے اس کی شناخت ایک دہشت گرد ریاست کے طور پرکی جانی چاہیے اور اسے الگ تھلگ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ وزیر مملکت برائے خارجہ اْمور وی کے سنگھ نے کہا کہ موجود حالات میں کوئی بھی جذباتی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا لیکن بھارتی وزیراعظم کے بقول ’اب کوئی نہ کوئی فیصلہ ضرور کیا جائے گا‘۔
بھارتی وزیر اعظم کے دفتر کے ایک سینیئر وزیر جتیندر سنگھ نے کہا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ حکومت ایسا کوئی قدم اٹھائے گی کہ جس سے مستقبل میں اس طرح کی حرکت کرنے کی کوئی جرات نہ کر سکے۔اس حملے کے جواب میں کوئی کارروائی نہ کرنا بزدلی ہو گی۔‘‘ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہمنا اور پارٹی کے کشمیر کے انچارج رام مادھو نے اس حملے کے لیے براہ راست پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ’’اب عسکری تحمل کا وقت ختم ہوا۔ اب ایک دانت کے بدلے پورا جبڑا اکھاڑنا ہوگا۔‘‘ بھارتی ٹی وی چینلوں پر سابق فوجی جرنیل اور عسکری ماہرین آگ اگلتے رہے کہ انڈیا پاکستان کے خلاف نہ صرف موثر فوجی کارروائی کرے بلکہ ایسی فوجی کارروائی جسے پورا انڈیا اور پوری دنیا دیکھے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ پیغام میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی ڈائریکٹر ملٹی جنرل ملٹری آپریشنز نے بے بنیاد اور قبل از وقت الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے انڈین ہم منصب سے کہا ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی ایسے شواہد ہیں جن کی بنیاد پر کارروائی کی جا سکتی ہو فراہم کیے جائیں۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے دراندازی کی اجازت نہیں کیونکہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کے دونوں جانب سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات ہیں۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے کہا کہ ’انڈیا کسی قسم کی تفتیش کیے بغیر ہی پاکستان پر الزام لگا رہا ہے اور ہم اسے صریحاً مسترد کرتے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ انڈیا کا پرانا وتیرہ ہے کہ وہ بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزام لگا دیتا ہے۔
یہ حملہ تھا یا حملہ کے نام سے بھارتی ڈرامہ، اس سوال پر خاصے شکوک وشبہات اٹھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلے تناظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ’’حملہ‘‘ اس خطے میں ہوا ہے جس پر بھارت نے عرصہ ستر برس سے قبضہ کیا ہواہے، جس کے باسی اس قبضے کے خلاف مسلسل جدوجہد کرتے رہے ہیں اور آج بھی وہ زور وشور سے بھارتی قبضے سے آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں۔
ان 70برسوں کے دوران آزادی کی تحریک مختلف مراحل سے گزرتی رہی ہے۔ حالیہ مہینوں میں تحریک میں تیزی اس وقت آئی جب قابض بھارتی فوج نے نوعمر کشمیری نوجوانوں کو شہید کرنا شروع کردیا، بالخصوص ایک نوجوان برہان وانی کی شہادت نے اس تحریک کو آگ کے بگولے میں تبدیل کردیا۔اب ہزاروںکشمیریوں کے مظاہرے پاکستانی پرچموں کے سائے میں ہورہے ہیں، لوگوں نے گھروں پر پاکستانی پرچم لگا رکھے ہیں، گلیوں اور بازاروں میں در اور دیواروں پر سبز رنگ کے نعرے لکھے ہوئے ہیں کہ ’’بھارتیو! یہاں سے دفع ہوجاؤ۔‘‘
دکانوں کے شٹرز پر سبز اور سفید رنگ کے پینٹ کے ساتھ پاکستانی پرچم بنائے گئے ہیں۔ بھارت نواز کشمیری سیاست دانوں کے گھروں پر حملے ہونے لگے، مقبوضہ کشمیر کے بھارتی کٹھ پتلی حکمران بھی اس تحریک کے خلاف کوئی بیان دینے کی جرات نہیں کررہے تھے، آپ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی یا ان کے ساتھیوں میں سے کسی کا ایسا کوئی بیان تلاش نہیں کرسکتے۔ برہان وانی کی شہادت پر خود بی جے پی کی کشمیری رکن پارلیمان نے بھی دکھ ظاہر کیا۔
برہان وانی کی شہادت اور اس کے جنازے( جس میں لاکھوں کشمیریوں نے شرکت کی تھی) کے بعد جب یہ سوال اٹھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بپا ہونے والی تحریک آزادی کے نئے مرحلے کے پیچھے پاکستانی ہاتھ ہے یا نہیں؟ بذات خود بھارتی ٹیلی ویژن چینلز پر بیٹھے بزرجمہر پاکستانی ہاتھ تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ ظاہر ہے کہ وہ دانشور برہان وانی کے جنازے میں شریک لاکھوں افراد کو ’پاکستانی‘ قرار دینے کی حماقت نہیں کرسکتے تھے۔
نوعمر کشمیری نوجوانوں کی شہادتوں کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر مکمل طور پر بھارتی قبضے سے باہر ہوچکا ہے۔ دو ماہ ہوچکے ہیں، پورے مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو نافذ ہے، دنیا میں کہیں بھی اس قدر طویل کرفیو نافذ نہیں رہا۔ کشمیر کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ یہاں کے لوگ عیدالاضحیٰ نہیں مناسکے۔
سری نگر سے شائع ہونے والے اخبار’ رائزنگ کشمیر‘ نے لکھا:’’ یہ کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، پہلی بار عید پر بھی کرفیو ہے۔ ایسے حالات ہیں کہ مسلمانوں کو اجتماعی فرض نماز ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ آج تک کم ازکم عید کے موقع پر مساجد بند نہیں ہوئی تھیں‘‘۔ اخبار مزید لکھتاہے: ’’ بھارتی حکومت مسلسل انکاری رویہ اپنائے ہوئے ہے اور کہہ رہی ہے کہ یہ تو بس یونہی خود بخود ہی انقلاب شروع ہوگیا ہے، اوسط عمر کے کشمیری نوجوان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ بس! یہ آخری جنگ ہے، ابھی نہیں توکبھی نہیں‘‘۔
مقبوضہ کشمیر میں ظلم وجبر کے ضمن میں پوری دنیا بھارت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہی تھی، انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں بھی ایسی رپورٹس جاری کررہی تھیں جو بھارت پر عالمی دباؤ بڑھانے کا سبب بن رہی تھیں۔ ادھر پاکستانی وزیراعظم نوازشریف نے بھی اعلان کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھارتی مظالم کے خلاف بات کریں گے۔
امریکہ روانگی سے پہلے نوازشریف کے بیانات اور تیاری سے واضح ہورہاتھا کہ وہ ایسا ماحول بنائیں گے جس میں بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری قوم کو خود ارادیت کا حق دینے پر مجبور ہوجائے گا۔ ایسے میں بھارتی قیادت کے بیانات، ٹیلی ویژن چینلز پر ہونے والے پروگرامات اور تجزیوں سے بھارت کی پریشانی واضح ہورہی تھی۔ بعض ماہرین خدشہ ظاہر کررہے تھے کہ جب پاکستانی وزیراعظم نوازشریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے پہنچیں گے، عین اسی وقت بھارت کی طرف سے کچھ نہ کچھ ایسا ہوگا جس کے نتیجے میں وہ عالمی دباؤ سے نکلنے کی کوشش کرے گا۔ ماضی میں بھی بھارت نے عالمی دباؤ سے نکلنے کے لئے یا پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لئے ایسی حرکتیں کی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حالیہ ’’حملے‘‘ کی ٹائمنگ دیکھی جائے تو تصویر کافی حد تک واضح ہوجاتی ہے۔ دوسری بات: یہ کیسا عجیب معاملہ ہے کہ اڑی میں پہنچنے والے حملہ آوروں نے اپنی پاکستانی شناخت کو اپنے ہمراہ رکھنا ضروری سمجھا، بالخصوص پشتو لٹریچر۔ تیسری بات:ہوسکتاہیکہ یہ لٹریچر افغان صدر اشرف غنی فراہم کرکے گئے ہوں جنھوں نے حالیہ ’’حملے‘‘ کے بعد بیان وہی جاری کیا جو نئی دہلی میں تیار ہوا تھا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر نے کی ضرورت ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ چھاج بولے سو بولے چھلنی بھی بولے۔ یہ وہی اشرف غنی ہیں جو حالیہ ’’حملے‘‘ سے دو روز قبل نئی دہلی میں بھارتی وزیراعظم مودی کے ساتھ بیٹھ کر پاکستان کو دھمکی دے رہے تھے کہ وہ پاکستان کو بلاک کردیں گے۔ بعض مبصرین پورے تیقن سے کہہ رہے ہیں کہ یہ ’’حملہ‘‘ بھارت اور افغانستان کا مشترکہ منصوبہ تھا۔