لاہور (ویب ڈیسک) بد قسمتی،آنے والے کڑے حالات دوزخ صغریٰ کے منظر۔اطمینان اتنا 22کروڑ لوگوں کے بیچ اس دفعہ کاریگر بمعہ مصنوعات کے موجود رہیں گے۔ وللہ اعلم بالصواب۔غلط نہیں کہ احتساب کا نظام بنایا ہی سیاسی جماعتوں کی گوشمالی ،جوڑ توڑ مروڑ کے لیے۔پھر فائدہ کیوں نہ اُٹھایا جائے؟جس کیس میں کرپشن کا وجود نہیں،
نامور کالم نگار حفیظ اللہ خان نیازی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی میں شہباز شریف دھر لیے گئے۔کیا شہباز شریف نیب کے ہر بلاوے پر حاضر نہ ہوئے؟کیا شہباز شریف مسلم لیگ کی صدارت،اپوزیشن لیڈر سمیت ملک سے فرار ہوجاتے؟ پکڑا کیوں؟وجہ صاف ظاہر کہ بُزدار حکومت کو قائم رکھنے کی گارنٹی ،پھر مسلم لیگ ن کے طاقتور کندھوں کو ہلکا ن رکھ رہی ہے۔ 70سالہ تاریخ کا حاصل یہی کچھ،سب ذمہ دار، سیاستدان کچھ زیادہ،دو مضبوط ادارے سب سے زیادہ۔ ہر سازش ،ہر سیاسی ابتری ،ہر مارشل لا کے پیچھے مضبوط اور بعض اداروں کا گٹھ جوڑ۔ گٹھ جوڑ کے زور بازو پر کئی دفعہ حکومت قائم ہوگئی۔ کئی دفعہ صاحب فراش،ICU میں۔ وزیر خزانہ نے چند دن پہلے اسلام آباد چیمبر میں خطاب فرمایا کہ’’ وطن عزیزآج پھر ICUمیں ہے‘‘۔ ذمہ دار کون؟ سانحہ مشرقی پاکستان ازبر رکھنا تھا، بھول گئے۔ خودساختہ پاک دامنی، خبط مسیحائی سے سرشار قیافہ شناسوں کا ذہن اور ذہنیت ،مفاداتی بغض اور عناد سے کوٹ کوٹ کر بھری۔ملک ٹوٹ گیا، جوڑ، توڑ، پھوڑ، مروڑ کے عزم بالجزم میں کوئی کمی بیشی نہ آئی۔ وطن عزیز، 70 سال سے ایک نابکار،کینہ پرور،بد مزاج، متکبر دائرہ (VICIOUS CIRCLE) میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ آج کا احتساب 70 سالہ اسی گٹھ جوڑ کی حرکات اور سکنات کا نچوڑ ہے۔نواز شریف کو سیاست سے باہر رکھنے کی چار سالہ جہد مسلسل، اعصاب شکن نہیں تو تھکا دینے والی ورزش ضروررہی۔
قوم کی اداروں پر تقسیم کونے کھدروں تک پہنچ گئی۔ پنجاب کے حالیہ سینیٹ الیکشن نے کنفرم کر دیا کہ ضمنی الیکشن جیتنا ضروری وگرنہ PTکی نازک براندا م حکومت دھڑام سے نیچے۔پروا نہیں،آخری خبریں آنے تک ڈالر135روپے کا،کل تک 140روپے،IMF کے آگے کشکول ، مہنگائی کا سونامی ،بھیک بلا تفریق ہر ملک کی دہلیز پر ماتھا۔دوسری طرف وفاقی ، پنجاب ، KP،حکومتیں مجموعہ لطائف و اضداد۔ شہباز شریف نواز شریف کو پابند سلاسل رکھ کر ہی کام چلانا ہوگا۔ مملکت خداداداسلامیہ بمطابق قدیم یونانی قوانین، چلائی جا رہی ہے۔ ساتویں صدی قبل مسیح یونان ریپبلک نے پہلی دفعہ قانون و آئین کے ضابطوں میں اپنے آپ کو جکڑنے کا تہیہ کیا۔وقت کے فلسفی،ریاضی دان ،قانون دان ڈریک (DRAC) کو ضابطوں کی دستاویز بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ 621قبل مسیح ،ڈریک نے انسانی خون سے ریاست کا پہلا آئین لکھا۔ PLUTARCH نے 6سوسال بعد LIFE OF STOLEN میں کتابی صورت دی۔ڈریک نے ’’کمزور اور غریب کے ہر جرم کی سزا موت تجویز کی جبکہ طاقتور کے اوپر کڑی سزائیںنافذ نہ کرنے کا مشورہ لف تھا‘‘۔ یہی وجہ کہ ڈریکونین قوانین ظلم و بربریت کی علامت سمجھے گئے۔شہباز شریف کی گرفتاری ڈریکونین قانون کے تحت ہی ہوئی۔ جملہ معترضہ کہ ٹھیک 18سو سال بعد1215عیسوی میں اسکاٹ لینڈ کے غریب کسانوں نے انگریز بادشاہ JOHN کو مجبور کر کے میگنا کارٹا MEGNA CARTA،ایک نیا عمرانی معاہدہ بنایا۔ بنیادی حقوق کی گارنٹی ملی ۔میگنا کارٹا جدید ریاستوںکے آئین و قانون اور انسانی حقوق کی بنیادہے۔وطن عزیز میں بنیادی حقوق کے ضامن آرٹیکل 8تا28دن دیہاڑے روندے جارہے ہیں۔ 10(A)ہو یا کئی دوسری دفعات، توجیح تشریح اپنے اپنے مفادات کے مطابق جاری و ساری ہے۔یہاں آرٹیکل 184(3) آنکھ اوجھل۔آرٹیکل10(A)پہاڑ اوجھل۔ نواز شریف کوسیاسی طور پر غیر متعلقہ بنانے، شکنجے میں لانے کے لیے 2014ء سے چار سالہ آپریشن جاری ،صفحہ ہستی سے مٹانا مطمح نظرتھا۔2014ء میںخوابیدہ عمران خان کو جگایا بمعہ غریب الوطن قادری کو بلایا۔بالآخر 2017ء میں آپریشن ’’GO NAWAZ‘‘ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ملک کا کیا بننا تھا؟سوچنے کا وقت تھا نہیں۔ گراوٹ ،پستی کو حدیں ٹاپنا پڑیں۔بات بگڑی،زیادہ ۔نتیجتاً شہباز شریف کو پکڑ لیا۔کرپشن اس ملک کا ایشو نہیں وگرنہ عمران خان کی ’’ بُکل‘‘ میں چوروں کا انبوہ ہے۔ 20 بلین روپے کے بلین ٹری،75 بلین کی تتر بترمیٹرو اور پھر بلیک لسٹڈ ٹھیکیدار کو ٹھیکہ،KP ہاؤس اسلام آباد میںتین سال میں 22کروڑ کی دودھ پتی،ہیلی کاپٹر کیس،سب پر دھول، کچھ نظر نہ آنے کو۔سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کی تین حرفی بات، ’’نیب عیب ہے‘‘۔ 1999ء میں مارشلائی حکم کے ذریعے وجود میں آنے والی ’’ نیب ‘‘ جنرل مشرف کی تقریر ( وزیر اعظم عمران خان کی پہلی تقریرہو بہو نقل) کے FOLLOW UPوجود میں آیا۔ لیفٹیننٹ جنرل امجد پہلے سربراہ،گجرات کے چوہدری برادران ،منظور وٹو،فیصل صالح حیات، چند درجن کاروباری پہلا نشانہ بنے۔چند ہفتوں بعد جنرل امجد کو ان سیاستدانوں ( جن میں فیصل صالح حیات،چوہدری برادران شامل) کے خلاف کارروائی روک کر داخلِ دفتر حکم ملا۔ جنرل امجد کا اپ سیٹ ہونا بنتا تھا۔عمران خان کی وزیر اعظم بننے کی امید بندھ چکی تھی۔جنرل امجد کی ہاں میں ہاں ملائی، سٹپٹاتے،جنرل مشرف کے پاس جا پہنچے۔ جنرل مشرف نیب کو اپنے دس سالہ اقتدار کی کنجی سمجھ بیٹھے تھے۔ تاثر یہ کہ جنرل مشرف نے عمران خان کو ڈانٹ پلا کر چلتا کیا۔الیکشن میں جو کمی بیشی رہ گئی وہ 2002ء کے الیکشن نتائج کے بعد اسی نیب نے فائلیں دکھا کر ظفر اللہ جمالی کی حکومت ایجاد کی۔عمران ہاتھ ملتے کئی سال اداروںکے خلاف دشنام طرازی میںاپنا خون جلایا۔ شہباز شریف کی گرفتاری 70سالہ وطنی تاریخ کا مضحکہ خیز واقعہ ضرور۔ایک تسلسل ۔ایک ایسی گرفتاری کہ کرپشن کی نوعیت، کیفیت، ہیئت آخری خبروں تک نامعلوم۔ حکومت ہی کا نقصان صفر، کچھ لیا نہ کچھ دیا،یعنی کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔البتہ بیٹھے بٹھائے شہباز شریف کی سیاست کو چار چاند لگا دیئے۔ الیکشن سے پہلے احتساب کی شہباز شریف کے خلاف حرکت، ضمنی الیکشن کی برکت ہی کہلائے گی۔ہر صورت میں 14ایم پی اے ہتھیانے ہیں۔بزدار کی کمزور حکومت کا غصہ مسلم لیگ ن پر۔ عمران خان کا دعویٰ سب کرپٹ پکڑوں گا۔ CHARITY BEGINS AT HOMEجہانگیر ترین، پرویز خٹک، علیم خان(وجیہہ الدین رپورٹ)، بابر اعوان، فواد چوہدری ایک کہکشاں، کارخیر میں دیر کیسی؟ دوسرا فرمان’’ بزدار اصل تبدیلی ‘‘اور اقتدار کو نچلی سطح تک پہنچانے کا وسیلہ ہے،عمران خان سے کبھی کبھی سچ منہ سے نکل جاتا ہے، جناب مجیب الرحمان شامی اور برادرم انصار عباسی سے متفق نہیں کہ پچھلے پانچ سالوں میں نیب قانون میں ترمیم لائی جاسکتی تھی۔جب دونوں پارٹیاں نیب چیئرمین اپنی مرضی کا نہ لا سکیں۔میرے بھائی،میری مانیں جب بھی ایسی ترمیم لانے کی جرأت کرتیں ،وقت سے پہلے دھڑن تختہ رہنا تھا،مثال بنا دی جاتی۔نیب اور لواحقین نے جو چاہا مل گیا،آج مرضی کی کنگز پارٹی بر سر اقتدار۔