برطانیہ کے سابق وزیر اعظم گورڈن برائون کا کہنا ہے کہ آج کل سیاست دانوں کی سیاسی زندگی بے حد مختصر ہوگئی ہے اور اب ان کی سیاسی زندگی چھ سال سے زیادہ کی نہیں رہی ۔
گورڈن برائون جو 2007 سے 2010 تک صرف تین سال کے مختصر عرصہ تک وزیر اعظم رہے، پچھلے دنوں ویلز میں ھے لٹریری فیسٹیول سے خطاب کر رہے تھے۔ سیاست دانوں کی سیاسی زندگی مختصر ہونے کی وجہ انہوں نے میڈیا پر چوبیس گھنٹوں تک متواتر سیاست کے ذکر اور اس پر بحث بتائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا پر طویل سیاسی بحث سے عوام، سیاست دانوں سے بہت جلد بے زار ہو جاتے ہیں۔
گورڈن برائون کی اس تاویل میں وزن نظر آتا ہے۔ 1930 میں ریڈیو کی نشریات شروع ہونے اور 1954 میں گھروں میں ٹیلیوژن کی دراندازی سے بیس سال پہلے تک ان پر سیاست، بھوت کی طرح سوار نہیں ہوئی تھی اور اس نے تفریحی پروگراموں اور ڈراموں کا گلا نہیں گھونٹا تھا۔ ریڈیو اور ٹیلیوژن پر چوبیس گھنٹوں تک لگا تار (Roll-on) خبروں اور ان پر بحث کا سلسلہ سب سے پہلے 1991 میں خلیج کی پہلی جنگ کے دوران CNN نے بغداد سے براہ راست نشریات سے شروع کیا تھا جہاں سے پیٹر آرینٹ جنگ کی خبریں نشر کرتے تھے۔ یہ سلسلہ اس قدر مقبول ہوا کہ دنیا بھر کے ٹی وی چینلز نے اس کی تقلید شروع کر دی۔
میں اس زمانہ میں بی بی سی اردو سروس سے وابستہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ بی بی سی عالمی سروس میں لگا تار 24/7 خبروں کی نشریات شروع کرنے کی تجویز پر بحث ہوئی تھی۔ ہم میں سے بہت سوں نے جنہیں روایت پسند قرار دیا گیا، اس کی مخالفت کی تھی اور یہ دلیل پیش کی تھی کہ چوبیس گھنٹوں تک خبروں اور ان پر بحث سے سامعین بور ہو جائیں گے خاص طور پر بر صغیر کے سامعین جنہیں خبروں سے تو بے حد گہری دلچسپی ہے کیونکہ وہ اپنے ملکوں کے میڈیا سے جن پر حکومت مسلط ہے، بے حد مایوس ہیں لیکن چوبیس گھنٹوں تک لگا تار خبروں اور سیاست پر بحث ان کے لئے ناقابلِ برداشت اور بے مقصد بوجھ ثابت ہوگی۔ ہماری یہ دلیل اردو، ہندی اور بنگالی نشریات کے لئے تو تسلیم کر لی گئی لیکن انگریزی کی عالمی سروس اور برطانیہ میں بی بی سی ریڈیو اورٹیلیوژن نے بڑے طمطراق سے اس تجویز کو اپنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے برطانیہ کے تمام نجی ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز نے اس رول آن کو ایسے گلے لگایا کہ اسی کے گلے سے لٹک گئے۔ 24/7 کی نشریات میں مالکان کے اشتہارات کے مالی مفاد کے ساتھ صحافیوں کے روزگار کا مفاد بھی وابستہ ہوگیا۔ اب عالم یہ ہے کہ برطانیہ میں ایک سو کے قریب ریڈیو اور ٹی وی چینلز ہیں جن پر دن رات خبریں، خبروں پر تبصرے، پارلیمنٹ کی کارروائی اور پارلیمانی کمیٹیوں میں بحث نشر ہوتی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم گورڈن برائون کا کہنا ہے کہ آج انیسویں صدی کے سیاست دانوں کا، گلیڈ اسٹون اور ڈزرائیلی کی طرح طویل سیاسی کیریر نا ممکن ہے۔ ڈزرائیلی نے گو 77 سال کی عمر پائی لیکن ان کی سیاسی زندگی 44 برسوں پر محیط تھی جس کے دوران وہ دو بار وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز رہے۔ اسی طرح گلڈاسٹون کا سیاسی کیریر ساٹھ سال طویل تھا اور وہ بارہ سال تک وزیر اعظم رہے۔ اس وقت جب وہ اپنی آخری عمر میں وزیر اعظم تھے ان کی عمر بیاسی سال تھی۔
گلیڈ اسٹون
ڈزرائیلی
گورڈن برائون نے خیال ظاہر کیا کہ آج کل میڈیا جس طرح چھایا ہوا ہے اس کی وجہ سے کسی سیاست دان کی سیاسی زندگی ڈزرائیلی اور گلیڈ اسٹون کی طرح طویل نہیں ہو سکے گی اور کوئی خاتون مارگریٹ تھیچر کی طرح بارہ سال تک وزیر اعظم نہ رہ پائیں گی۔ گورڈن برائون سے جب پوچھا گیا کہ کیا ان کے ذہن میں ان کے پیش رو ٹونی بلئیر ہیں جو دس سال تک وزیرِ اعظم رہے اوروعدہ کے برخلاف وہ طویل مدت تک وزارتِ عظمیٰ سے چمٹے رہے اور انہیں تین سال سے زیاہ مدت تک وزارتِ عظمیٰ پر فائز رہنے کا موقع نہیں دیا۔ گورڈن برائون نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا نہیں میں دراصل جرمن چانسلر انگیلا مرکل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
جرمن چانسلر انگیلا مرکل پچھلے 29 سال سے سیاست میں ہیں اور پچھلے 13 سال سے چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں۔
میرے خیال میں پاکستان کے سیاست دان سخت جان ہیں۔ وہ نہ تو ریٹائر ہونے کا نام لیتے ہیں اور نہ سیاست چھوڑنے کے لئے آمادہ ہوتے ہیں، خاص طور پر جو اقتدار میں ہیں۔ شاید پاکستان میں اقتدار کا نشہ بہت تیز اور دیر پا ہے۔