چور کی داڑھی میں تنکا
تحریر: ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
قارئین میں نے گذشتہ دنوں ایک کالم ہماری بلی ہمیں کو میائوں لکھا میں نے اپنے کالم کے آغاز پر لکھا تھا کہ میں کسی کا نام نہیں لوں گا سو میں نے لکھ دیا نہ میں نے کسی پر اشارہ کیا اور نہ ہی میں نے کسی کو نامینیٹ کیایہ کالم اس قدر پسند کیا گیا کہ میں بتا نہیں سکتا مجھے خوشی اس سے بھی زیادہ ہوئی کہ میرا اخبار لوگ اس قدر محبت سے پڑھتے ہیں مجھے سیکڑوں لوگوں نے فون کئے چکوال بھر کے عوام نے میرے کالم کی تعریف کی مگر چور کی داڑھی میں تنکا کے مترادف میرے ایک ایسے دوست کو صحافتی بخار اس قدر چڑھ گیا کہ اس نے بھی ایک کالم ایک ایسے اخبار میں لکھ دیا جو عوام میں پڑھا ہی نہیں جا تاصبح جب میں گھر سے نکلا تو بوچھال کلاں کی گلی جہاں خالد کا ہوٹل ہے اور وہاں مزدور بیٹھتے ہیں ایک ہاکر اخبار تقسیم کر رہا تھا گزرتے میرے کانوں نے یہ الفاظ سنے کیا ہوا آج کوئی خاص خبر ہے جو اخبار زبردستی دیا جا رہا ہے اب جو اخبارزبردستی پڑھایا جا رہا ہو اس کی مقبولیت کا اندازہ آپ بہتر لگا سکتے ہیں۔
ویسے میں اس کا اور اس اخبار کا نام لینا بھی توہین سمجھتا ہوں مجھے پتا چلا لہ مجھے نور جہاں کے ساتھ اور رکشہ ڈرائیور کا خطاب دیا گیا تھا ویسے ایسے لوگ جو اپنے خاندان میں بھی ابھے الفاظ سے نہ پہچانے جاتے ہوں انہیں نور جہاں مرحومہ اپنے کتے نہلانے کے لئے بھی شائد نہ رکھتی مگر اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے اس صحافی جو نہ صرف صحافت بلکہ اپنے خاندان برادری کے لئے کلنک کے ٹیکے کی حثیت رکھتاہو جناب نے اپنے آپ کو صحافی دیکھانے کے لئے اپنے نانا پڑنانا اور کھڑنانا کو بھی صحافی یا کیا بنا ڈالا حتہ کہ یہ تک ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ جناب پیدا ہونے سے پہلے صحافی تھے ا ور جب پیدا ہوئے تو مولانا مودودی انتظار کر رہے تھے کہ کب صاحب دنیا میں تشریف کائیں اور کب وہ اسے گھٹی دیں شرکر کرو اس نے اس ناسور کو ختم کرنے کے کئے کوئی اور گھٹی نہ دے ڈالی ہوتی جھوٹ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے انہوں نے کتنے علما کے جوتے چاٹے جوتے چاٹنے والے کو کیا کہا جاتا ہے ،،،،َ؟۔
انہون نے جن علما سے اپنا ناطہ جوڑا ہے وہ اور ان کا خاندان بغیر داڑھی والے کو اچھا نہیں سمجھتے ان کا چہرہ صاف بتا دے گا خیر انہیں جو بخار ہوا ہے اس نے ٹائیفائڈ کی صورت اختیار کر لی ہے اب اس کا اتارنے کے کئے ہمیں کون سے انجیکشن لگانے پڑھیں میں نے اپنے کسی کالم میں یہ نہیں لکھا کہ میں کیا ہوں اب ضرورت پیش اس لئے آئی ہے کہ شائد ہم موصوف سے کم ہیں جناب میں قارئین سے نہیں آپ سے مخاطب ہوں میرا نام ریاض احمد والد کا نام محمد بشیر دادا کا نام ملک عالمشیر قوم نتال سے تعلق ہے ذرا اپنوں سے پوچھ لینا کہ یہ لوگ کون ہیں میں 1963کو بوچھال کلاں میں ہی پیدا ہوا میرا گھرانہ دینی ہے یا موصوف کا اس کو بھی دیکھ لینا میں نے اپنی صحافت کا آغاز 1988 میں ہفت روزہ نمکزار سے کیا تھا میری کوالٹی یہ ہے کہ میں جس میدان میں اترا کامیابی میرا مقدر بنی جس کا مجھے فخر ہے ڈاکٹر طارق اور فاروق شاہ صاحب میرے کلاس فیلو رہے ہیں اب مجھے فخر ہے کہ میں نے فنکار بننے کی کوشش کی شانور سٹوڈیو میں کام کیا جو میرے لئے فخر ہے چھوڑا والدین کی مخالفت کی وجہ سے تھا۔
تعلیم کو بھی اسی شوق کی وجہ سے پورا نہ کیا ورنہ اس ناسور کے لئے علاج میں خود کرتا 1992 میں تصور بھٹی مرحوم کی وساطت سے میں نے دھن کہون جائن کی جہاں مجھے ضلع چکوال کے بہترین صحافی کا یوارڈ ملا ضلع چکوال کا سب سے بڑا ایوارڈ دھن چوراسی بھی میرے پاس ہی ہے جس کا میں نے کبھی تذکرہ نہیں کیا میں نے روزنامہ پاکستان الاخبار جنگ نوائے وقت میں لکھا جو میری مقبولیت کا سبب بنے میں نے ہفت روزہ ونہار کا پہلا شمارہ اپنے ہاتھوں سے لکھااور اسے چلایا مگر بعد ازاں ہماری غلظیوں کا خمیازہ یہ اخبار بند رہا یا کسی اور کے ہاتھوں میں چلا گیا بعد میں ہم نے ہفت روزہ ونہار کا اجرا ایک بار پھر کیا اور ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا اور ایک بار پھر اس سے الگ ہو گیا اس دوران میں نے تو اپبا صحافتی کام جاری رکھا مگر ونہار سے محبت کو بھی دل سے نکلنے نہ دیا اور آج جب عثمان اعوان نے میرا نام ایڈیٹر کے طور پر لکھا تو موصوف نے مجھے ونہار سے الگ کرنے کی انتھک کوشش کی جب انگور نہ ملے تو تھو کھٹے ان کی تکلیف شدت اختیار کرتی گئی بلآخر یہ نوبت آئی کہ مجھ پر کیچڑ اچھال رہے ہیں پہلے تو یقین جانیے اس کالم کو کسی نے پڑھا نہیں اگر پڑھا ہوتا تو مجھے فون ضرور کرتے ملک اشتیاق جو میرے دوست ہیں انہوں نے یہ اخبار مجھے بھیجا میرے ایک دوست نے جس نے اخبار دیکھا تھا اسے جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ وہ اسے نہیں پڑھتے۔
مگر کسی کے ہاتھ میں سرسری طور پر دیکھ لیا یقین جانیے میں نے ان پر کیچڑ اچھالنا ہوتا تو میں کیا کر گزرتا مگر میرا ضمیرایسا نہیں ہے ہم نے کسی کو نہ تو اخبار والے کو روکا اور نہ ہی کسی کو اشتہار دینے سے روکا یہ ان کے گھٹیا پن مظہر ہے جناب اب بات رکشہ چلانے کی جناب میں نے عہد کر رکھا ہے کہ اپنے بچوں کو حلال کی کمائی کھلائوں گامیں نے ہمیشہ مزدوری پر فخر کیا ہے میں نے ایک مرلہ جگہ فروخت نہیں کی بلکہ رزق حلال سے اپنا ایک چھوٹا سا گھر بنا لیا ہے جس کے صحن میں ایک گاڑی اور ایک رکشہ کھڑا ہے جس لہ آمدن سے میں اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہوں اب جناب کا تذکرہ بھی ہو جائے۔
ان کے والد نے بڑی محنت سے جگہیں بنائیں میری ان سے رشتہ داری ہونے کی وجہ سے انہیں بہتر سمجھتا ہوں یہ جگیں موصوف نے فروخت کر کر اللے تللے اڑائے موصوف کا نام آئے تو ان کے بزرگوں کی روحیں بھی کانپ جاتی ہوں گی ان کا نہ کوئی گھر ہے جس کی وجہ سے یہ شناخت ہو کہ موصوف کہاں کے مہاجر ہیں مانا کہ آجڑی برادری بڑی عزت دار ہے مذہبی طور پر کٹر ہیں مگر جناب جب اس برادری سے جڑنے کی کوشش کرتے ہیں پوری برادری کا سر شرم سے جھک جاتا ہے امید ہے غور کرتے ہوئے پہلے اپنی شناخت یعنی اپنا گھر بنائیے اپنے رشتہ داروں میں جگہ بنائیے پھرجو مرضی کرنا جناب تمارا قصور نہیں چنگیاں دے گھر مندے پیدا ہوتے رہتے ہیں ( اگلی قسط انتظار کریں جاری ہے )
تحریر: ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
03348732994 malikriaz57@gmail.com