تحریر : احمد سعید
بیوی ایک انتہائی خطرناک شئے ہے۔غصے میں اس کے ہاتھ جو بھی شے لگے وہ شوہر کے منہ پہ دے مارتی ہے ۔وہ اپنے شوہر کو کوئی شے نہیں سمجھتی ۔بلکہ وہ اِسے سمجھتی ہی کچھ نہیں۔وہ اِ س کے ساتھ زیادہ فری نہیں ہوتی۔ کیونکہ ا ُ س نے اپنے آپ کو فری ہینڈ دیا ہوتا ہے ۔وہ جب چاہے جیسے چاہے اپنا ہینڈ گھما کر شوہر کے منہ پہ رسید کر سکتی ہے ۔ وہ اِس میدان میں بے باک کھلاڑی ہوتی ہے ۔وہ سب کے سامنے اچھی بن سکتی ہے سوائے شوہر کے۔ اِس کو تو وہ منہ بنا بنا دکھاتی ہے بلکہ منہ چڑھا چڑھا کر ۔ اور شوہراُس کے اِس فعل پر بھی آگے سے دندیاں(دانت)نکال کر دکھاتا ہے کہ بیگم جی آپ کِس قدر خوبصورت منہ بنا لیتی ہیں۔
خیر جیون کے سفر میں دو دن اُس نے آپ کی بھر پور حوصلہ افزائی کی ہوتی ہے، اور باقی زندگی بھر پور ”کُتے کھانی”۔ یعنی شادی اور ولیمے والے دن وہ آپ کی اچھی خاصی عزت کرتی ہے(چاہے آپ اِس عزت کے قابل ہوںنہ ہوں)۔ ویسے ولیمے والے دن مختلف رائے پائی جاتی ہیںکہ وہ اندر سے عزت نہیں کرتی فقط دکھاوا ہی کرتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیںکہ بیوی کی بیرونی کیفیت سے اس کی اصل کیفیت کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے۔میں(ماہرِ صنفِ نازک) کہتا ہوں کہ بیوی کی اندرونی کیفیت جان کر بھی اصل کیفیت کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے۔
کیا کوئی جانے کیا کچھ اندر ہے
یہ جو بیگم ہے اک سمندر ہے
کل سہیلی کو بولی ،کچھ ایسے
یہ کوئی بندہ ہے ؟یہ تو بندر ہے
بیگم آپ کے تمام دوستوں کے خلاف ہوتی ہے، سوائے اس کے جو آپ کا بچپن کا دوست تھا اور آپکو اُس کا پتہ بھی نہیں پتہ کہ اب کہاں ہے ؟یعنی برسوں ہوئے اُس سے مِلے ۔ اگر بھولے سے اُس کے ساتھ بیتا ہوا کوئی قصہ بیگم کے گوش گزار فرمایا، تو شروع ہونے سے پہلے ہی وہ ختم کر دیں گی یہ کہہ کر کہ یہ قصہ اور کتنی بار سنانا ہے؟آپ محترمہ بیگم صاحبہ کے پیچھے پیچھے وضاحت کرتے پھریں گے کہ یہ قصہ اور ہے وہ اور تھا،سن تو لو پہلے۔وہ فرمائیںگی،تم نام تو اسی دوست کا لے رہے ہو۔اب انھیں میاں صاحب! کیسے سمجھائیںکہ دوست کے ایک ہونے سے قصے کا ایک ہونا کہاں سے لازم ہے؟بھئی ایک دوست کے ساتھ سینکڑوںقصّے ہو سکتے ہیں۔
وہ زمانے اور تھے اب یہ زمانہ اور ہے
غم کی جو آندھی چلی قصہ پرانا اور ہے
لیکن بیوی کی کہی ہوئی بات پتھر پر لکیرہوتی ہے، اور شوہر لکیر کا فقیر۔اس لکیر کو مٹانے کی بجائے نیا پتھر لے آئیں،اور پھر وہ اس پتھر پہ لکیر کی جگہ لکیریں مارے یا آپ کے ہی دے مارے(اُسے کون پوچھنے والا) ۔اور مار کر کہے :،، کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو،، کیونکہ وہ خود اس کام پہ معمور ہے تو کسی اور کو کیوں اجازت دے۔بیوی کی سہیلیاں تو چونکے شوہر کی سالیاں ہوتی ہیں تو ان کے بارے میںشوہر کی کیا جرأت کہ کچھ کہے،ویسے بھی شادی کے بعد شوہر کی ٹوٹل (مکمل )جرأت ختم ہو جاتی ہے ۔فقط سہیلیوں پر ہی کیا ”منحصر”وہ بیوی کے خاندان میں سے کسی کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
کسی کے بارے میں غلطی سے کوئی لفظ نکل بھی گیا تو وہ پورا ہفتہ آپکے خاندان کے ایک ایک فرد کا نام لے کر اُس کووہ وہ الفاظ سے نوازے گی کہ آپ آپے سے باہر ہو جائیں گے ،اور اس شدید غصے کا اظہار اپنے منہ پہ اپنے ہی ہاتھوں دو چا ر ”تھپڑ ” مار کر کریں گے ۔ بقول میرے (میرے سے مراد میں خود ہوں):
شادی وی ہن کر کر لاں گے
جی لاں گے کجھ مر مر لاں گے
اہدے تے جے غصہ آیا
اپنے ای منہ تے دھر دھرلاں گے
بیوی آپکی کسی بھی بات پہ کسی بھی لمحے خوش ہوسکتی ہے۔اور یہ لمحہ آپ کے لئے لمحہ ء فکریہ ہونا چاہیے، کیونکہ اس بات پہ آپ کو شک بھی نہیں گزرہ ہوتا کہ وہ اِس بات پہ خوش بھی ہو سکتی ہے،اور اس پہ طرّا یہ کہ جس بات پہ وہ آج خوش ہوتی ہے اگلے دِن اسی با ت پر ناراض بھی ہو سکتی ہے۔
بقول خالد مسعود خان:
بیوی ایسا گورکھ دھندہ ہے جو پلّے پر نہیں سکتا
کل جس بات پہ خوش تھی اَج وہ اوسے ای گل پر لڑسکتی ہے
زوجہ ماجدہ وہ جاسوس ہے جو دو منٹ کے اندر اندر
دِل کی ستویںتہہ کے اند ر بیٹھی گل کو پھڑسکتی ہے
تحریر : احمد سعید