لاہور (ویب ڈیسک) اللہ کی آخر ی کتاب یہ کہتی ہے : لوگ سوئے پڑے ہیں ۔ موت آئے گی، تب جاگیں گے ۔ میر ؔ صاحب نے کہا تھا مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر خدا کی زمین آدمیوں سے بھری پڑی ہے مگر ان میں انسان کتنے ؟
نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کتنے ہیںجن سے سیکھا جا سکتا ، جن پہ رشک کیا جا سکتاہے ، جنہیں دیکھ کر امید جاگتی ، زندگی بامعنی لگتی ہے ۔ اب یہ معاشی حیوانوں کی بستیاں ہیں، جن میں کلیدی چیز اخلاق و احساس ، دردمندی اور خلوص نہیں بلکہ معاشی ترقی ہے ۔ جینے اور بروئے کار رہنے کے لیے وسائل درکار لیکن احساس اگر باقی نہ رہے ؟ درد کی دولت ہی کھو جائے ؟ کوڑے کے ڈھیروں پہ بچوں کی لاشیں ملتی ہیں اور اس پر بھی لوگ تڑپ کر جاگتے نہیں،البتہ اقتدار کی جنگ میں زیادہ پرجوش دکھائی دیتے ہیں ۔ تعلیمی ادارے برباد ہو گئے اور ان سے نکلنے والی نسلیں نیم خواندہ ہیں ۔ ہسپتالوں میں مریض معالجوں کی بے حسی کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ وہ استاد قصے کہانیاں ہو تے جاتے ہیں ، جن کے بچّے آموختہ یاد نہ کرتے تو ان کے دل درد سے بھر جاتے ۔ بیگم حمید گل ان زندہ انسانوں میں سے ایک تھیں ، جنہیں دیکھ کر رشک آتا اور کبھی تو حیرت ہوتی ۔ گھر میں ہمیشہ انہیں حرکت میں پایا۔کوئی نہ کوئی مسئلہ سلجھاتے، کوئی نہ کوئی گرہ کھولتے ۔ ان کے میاں حسنِ اخلاق کا مجسمہ تھے ۔ نرم دل و پاکباز۔ بلا کے وضع دار اور مہمان نواز۔ ایک دن ہنستے ہوئے یہ قصہ انہوں نے سنایا : افغانستان کے وزیرِ اعظم ایک بڑے وفد کے ساتھ ان سے ملنے آئے۔ تیس بتیس آدمی ہوں گے ۔ جنرل نے کہا :کھانا کھا کر جائیے گا ۔ بیگم حمید گل کو بتایا توحیرت سے جنرل صاحب کو دیکھا اور پھر ایک عجیب جملہ کہا ’’میں پٹھا ن کی بچی نہیں، اگر انہیںڈھنگ کا کھانا نہ کھلا ئوں ‘‘ ۔ گھر میں ایک آدھ ملازم موجود رہتا مگر اوپر کے کام کاج کے لیے ۔
پانچ چھ ہنڈیاں چولہے پر رکھ دیں۔ اس برق رفتاری کے ساتھ ، جو ان کا خاصہ تھا، کھانا پکانے میں جت گئیں ۔ کچھ دیر میں دسترخوان سجا اور اس اہتمام کے ساتھ، گویا پورا دن تیاری میں بیتا ہو۔ نہایت خوددار اور بے باک ، مستعد اور چوکس ۔ ایک بار ان کے صاحبزادے نے ان کی ذاتی الماری میں جھانکا تو بولیں :یہ جرات تو کبھی تیرے باپ کو بھی نہیں ہوئی ۔ مطالعہ سے شغف اور ایسا شغف کہ فرصت ہو تو ہمیشہ کچھ نہ کچھ پڑھتی رہتیں ۔ شادی کے ابتدائی دنوں کا ایک قصہ جنرل صاحب نے بیان کیا ۔بولے:آدھی رات کو ایک دن دلہن غائب۔ سب کمرے جھانک لیے ۔ اسی بے قراری میں سٹور کا دروازہ کھولا تو بتی جلائے مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی کتاب میں منہمک تھیں ، جن کے جیتے جاگتے کردار ہمیشہ ادبی تاریخ کا حصہ رہیں گے ۔ کبھی اپنے میاں کے ساتھ ان سے ملنے بھی جایا کرتیں ۔ ایک دن بتایا :عجیب بات ہے، شفیق الرحمٰن کھڑے ہوکر لکھتے ہیں ۔ پھر بچوں کی طرح حیرت سے آنکھیں پٹپٹائیں ۔ یہ حیرت اور سادگی عمر بھر ان کے ساتھ رہی ۔ اس بات پر ہمیشہ انہیں تعجب ہوتاکہ فارغ بیٹھا آدمی خیالات کی دنیا میں کھویا رہے یا یونہی باتیں بناتا رہے ۔
ایک دن مجھ سے کہا : جنرل صاحب کو تم سمجھاتے کیوں نہیں ۔ اپنا بہت سا وقت رائیگاں کرتے ہیں ۔ رائیگاں نہیں ، وہ گپ شپ کے قائل تھے، مہمان داری کے عادی ۔ کہا کرتے،علم صرف کتابوں سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ سننے ، پڑھنے اور تبادلہ ء خیال کرنے سے بھی ۔ سادگی کے با وصف ، غور و فکر کا مادہ بیگم صاحبہ میں بہت تھا۔ ہمدردی اور انسان دوستی کے با وصف ایک ترازو بھی ۔ کھوٹے کھرے کی تمیز بھی ۔ مستقل طور پر معاملات ، مسائل اور آدمیوں کو جانچنے کی خوبھی ۔ ہمیشہ تمہید کے بغیر گفتگو کرتیں۔ ہمیشہ ایک سوچا سمجھا، نتھرا ہوا خیال ۔ اچانک ایک دن کہا : بعض چیزوں پہ جنرل صاحب زیادہ غور نہیں کرتے ۔ ایک بھکارن آئی اور بیٹی کی شادی کا افسانہ سنا کر ان سے روپیہ اینٹھ کر لے گئی۔ بہو سے بہت سے پیسے قرض لے کر دے دیے۔ غریبوں کی مدد کرنی چاہئیے لیکن سوچ سمجھ کر ، جانچ تول کر ۔ میں تو یہ کرتی ہوں کہ جہاں کہیں مفت کھانا کھلایا جاتاہے ، وہاں جاکر جائزہ لیتی ہوں اور جو کچھ بن پڑتاہے ، کر گزرتی ہوں ۔ آنکھیں بند کر کے ہر ایک پر اعتماد نہیں کرتی ۔ اپنے میاں سے کبھی ایسی بے تکلفی سے بات کرتیں کہ قدرے عجیب سا لگتا ۔ مثلاً ایک آدھ بار میری موجودگی میں کہا : یونہی دن بھر بے کار جو آپ بیٹھے رہتے ہیں تو کچھ کام دھام کیا کیجیے ۔ کچھ سودا سلف ہی لے آیا کیجیے ۔ جنرل صاحب اس پر ہنس پڑے اور کہالاتا تو ہوں ، جب آپ کہتی ہیں ۔ اس بے تکلفی کے باوجود ایک بار ایک بہت عجیب بات انہوں نے کہی ۔ بولیں : اپنے میاں سے میرا رشتہ آقا اور غلام کا ہے ۔ ان کا کوئی حکم میں نہیں ٹالتی ۔ یہ انکسارتھا ۔ ایک خاتونِ خانہ کا احساسِ ذمہ داری ۔ نماز روزے کے اس گھر میں سبھی عادی تھے ۔
بیگم صاحبہ کام سے فرصت پاتیں تو ذکر و فکر میں لگی رہتیں یا تلاوتِ قرآنِ کریم میں ۔ ہوائی جہاز میں جب بھی انہیں دیکھا، تلاوت یا تسبیح میں مصروف ۔ پرواز بلند ہوتی تو دعائیں پڑھا کرتیں ۔جہاز کے اترنے کا وقت آتا تو بھی دعا پڑھنے لگتیں ۔ ان کی صاحبزادی عظمیٰ گل میں حسِ مزاح خوب ہے ۔ فون کر کے کہتیں : اماں تو آپ نے جہاز لینڈ کرا دیا ؟ جواب ملتا : ہاں ، ہاں ، میں ہی جہاز کی پائلٹ ہوں۔ اپنی ماں کی بہترین خصوصیات عظمیٰ گل کو ورثے میں ملی ہیں ۔ پرسوں پرلے روز اسلام آباد کے بلیو ایریا میں کشمیر پر ایک ریلی نکالی اور اسی دن جس روز والدہ ماجدہ کی تدفین کی۔ وعدہ وفا کیا کہ پہلے سے اعلان تھا۔یہ وہی جلوس تھا، جس کے ہزاروں شرکا پانچ کلومیٹر لمبا آزاد کشمیر کا پرچم اٹھائے تھے ۔ماں نے اپنا سارا وقت خاندان کو دیا ۔ بیٹی نے خاندان کے سوا عمل کے دوسرے میدانوں کو بھی ۔ جب سے کشمیر میں کرفیو لگا ۔اپنے میاں یوسف گل کی مدد اور حمایت کےساتھ ایک بے تابی کے ساتھ وہ مصروفِ عمل تھیں۔ جس جلوس کا یہ ذکر ہے ، شاید ہی اتنے آدمی اس موضوع پر کسی مظاہرے میں شریک ہوئے ہوں گے ۔ ماں کو یاد کرکے بلکتی رہیں ۔ بار بار کہتی رہیں :اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔ اس پر جناب عمر بن خطابؓ کا ایک واقعہ سنایا ۔ اپنے بھائی زیدؓ سے امیر المومنینؓ کو محبت بہت تھی ۔ دشت سے مدینہ منورہ آنے والے ایک شاعر نے ، بھائی جس کا ڈاکوئوں نے مار ڈالا تھا ، عالی جنابؓ کی فرمائش پر مرحوم کی یاد میں لکھے مرثیے سنائے تو حسرت سے کہا : اگر میں شاعر ہوتا تو زید ؓکا ایسا ہی مرثیہ لکھتا ۔ وہ بھی کوئی عجیب آدمی تھا۔ بولا: امیر المومنین!میرا بھائی جنگِ موتہ میں شہید ہوا ہوتا تو میں کبھی اس کا مرثیہ نہ لکھتا ۔ جانے والا چلا گیا تو بولے : کسی پرسہ دینے والے نے مجھے ایسا پرسہ نہیں دیا ۔ عرض کیا : دعا تو لازم ہے ، ہر مسلمان کو لازم مگر ایسی اجلی زندگی تمہاری ماں نے جی ہے کہ اللہ کی رحمت کے دروازے انشاء اللہ چوپٹ ان پر کھلیں گے ۔ موت سے کس کو مفر ہے ۔ یہی زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے ۔ اللہ کی آخر ی کتاب یہ کہتی ہے : لوگ سوئے پڑے ہیں ۔ موت آئے گی، تب جاگیں گے ۔ میر ؔ صاحب نے کہا تھا مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر۔