counter easy hit

سات سو مرتبہ جائوں گا

ازبکستان میں رحمت کا لفظ شکریہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے‘ لوگ دایاں ہاتھ سینے پر رکھتے ہیں‘ ذرا سا جھکتے ہیں اور بڑی محبت سے رحمت کہتے ہیں‘ آپ کو یہ عاجزی پورے ملک میں ملے گی‘ ازبک بلا کے مہمان نواز بھی ہیں‘ آپ کسی کے گھر چلے جائیں وہ میز پر کھانے کا انبار لگا دے گا‘ غریب سے غریب ترین ازبک بھی مہمان نوازی میں کمال کر دے گا‘ اس کے گھر میں کچھ نہیں ہوگا تو وہ محلے میں نکل جائے گا‘ ہمسایوں کو بتائے گا ’’میرے گھر مہمان ہیں‘‘ اور ہمسائے اپنی خوراک اس کے حوالے کر دیں گے‘ یہ لوگ کھانا پکانا اور کھانا کھانا بھی جانتے ہیں۔

ازبکستان کے ہر گھر میں کھانے کے تین چار کورس چلتے ہیں‘ یہ سوپ بہت شوق سے پیتے ہیں‘ یہ سوپ کو ’’شوربہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ شوربہ ہمارے شوربے جیسا ہوتا ہے‘ یہ لوگ گوشت بھی بہت کھاتے ہیں‘ گوشت بڑا ہو‘ چھوٹا ہو‘ مرغی کا ہو‘ گھوڑے کا ہو یا پھر یہ خشک ہو یہ ان کے دستر خوان کا ضرور حصہ ہوتا ہے‘ یہ لوگ سالاد اور فروٹ بھی پسندکرتے ہیں‘ یہ پلاؤ بنانے کے ماہر ہیں‘ ہندوستان میں پلاؤ ازبکوں نے متعارف کرایا تھا‘ یہ دو قسم کی روٹیاں کھاتے ہیں‘ پہلی قسم بیکری میں بنتی ہے‘یہ بن جیسی اور سخت ہوتی ہے‘ یہ لوگ اسے شوربے میں ڈبو کر‘ زیتون کے تیل میں بھگو کر یا پھر اس پر مکھن لگا کر کھاتے ہیں‘ دوسری روٹی افغانی نان جیسی ہوتی ہے‘ یہ اسے سالن کے ساتھ کھاتے ہیں‘ یہ دودھ سے ٹافی جیسی ایک ڈش بھی بناتے ہیں‘ یہ ڈش کُرت کہلاتی ہے‘ یہ دودھ کو باریک کپڑے میں ڈال کر دیوار کے ساتھ لٹکا دیتے ہیں۔

دودھ کا پانی نکل جاتا ہے اور کھویا پیچھے رہ جاتا ہے‘ یہ نمک ملا کر اسے دوبارہ کپڑے میں باندھتے ہیں اور دھوپ میں لٹکا دیتے ہیں‘ رہا سہا پانی بھی خشک ہو جاتا ہے‘ یہ کپڑے کو کھول کر کھوئے کی ٹکیاں بنا لیتے ہیں‘ یہ ٹکیاں کرت کہلاتی ہیں‘ کرت توانائی سے بھرپور ہوتا ہے‘ یہ لوگ اسے قہوے کے ساتھ بھی کھاتے ہیں اور اسے عام طور پربھی کھاتے رہتے ہیں‘ ازبکستان میں فروٹ اور ڈرائی فروٹ بہتات میں پایا جاتا ہے‘ یہ فروٹ کو میوہ کہتے ہیں اور دل کھول کر کھاتے ہیں‘ یہ گرین ٹی اور بلیک ٹی بھی پیتے رہتے ہیں‘ ان کے کھانے لمبے ہوتے ہیں۔

یہ لنچ ہو یا ڈنر گھنٹہ دو گھنٹہ میز پر بیٹھتے ہیں‘ یہ لوگ اس دوران دس پندرہ کپ قہوہ پی جاتے ہیں‘ ان کے کھانوں میں چربی اور گھی کم ہوتا ہے‘ یہ سالاد زیادہ کھاتے ہیں چنانچہ ان کا کھانا ہیوی نہیں ہوتا‘ ملک میں لاکھوں کی تعداد میں ریستوران ہیں اور ہر ریستوران دوسرے سے بہتر‘ معیاری اور قابل دید ہے‘ یہ لوگ ریستورانوں میں کھانا کھانا پسند کرتے ہیں‘ آپ کسی ریستوران میں چلے جائیں ویٹر مین کورس سے پہلے آپ کی میز سالاد‘ ڈرائی فروٹ‘ خشک گوشت‘ زیتون‘ اچار‘ چٹنیوں‘ مکھن‘ پنیر‘ بریڈ اور دہی سے بھر دے گا اور یہ تمام سازوسامان فری ہو گا‘یہ عادت ان لوگوں کی مہمان نوازی کو ظاہر کرتی ہے۔

ازبکستان کی اکانومی اچھی نہیں‘ آپ منی چینجر کو ایک ڈالر دیں تو وہ آپ کو سات ہزار سم دے گا‘ لوگ تھیلوں اور بوریوں میں نوٹ ڈال کر مارکیٹ جاتے ہیں‘ آپ کو ہر دکان میں نوٹ گننے کی مشین نظر آتی ہے‘ میں نے ایک گرم جیکٹ خریدی‘ قیمت پوچھی ‘ پتہ چلا 20 لاکھ سم۔ ڈالرز میں کنورٹ کر کے دیکھا‘ تین سو ڈالر بنتے تھے‘ میں نے دو ملین کی نفسیاتی لگژری کو انجوائے کرنے کے لیے جیکٹ خرید لی‘ میرے ایک دوست جب بھی ازبکستان جاتے ہیں‘ وہ سب سے پہلے ہزار ڈالر کے سم لیتے ہیں‘  نوٹ بوری میں ڈالتے ہیں‘ کندھے پر رکھتے ہیں اور اس عالم میں ہوٹل جاتے ہیں لیکن اس تمام تر کساد بازاری کے باوجود آپ کو ازبکستان میں غربت دکھائی نہیں دیتی‘ لوگ جی بھر کر کھانا کھاتے ہیں اور شاندار لباس پہنتے ہیں‘ آپ کو کسی شخص کا لباس گندہ اور جوتا خراب نظر نہیں آتا‘ خواتین سال میں ایک لباس خریدیں گی لیکن مہنگا اور خوبصورت خریدیں گی اور جب بھی باہر نکلیں گی وہ یہ لباس پہن کر نکلیں گی‘ مرد بھی ہر وقت سوٹ بوٹ اور ٹائی میں نظر آتے ہیں‘ گھر چھوٹے ہیں لیکن صاف ستھرے ہیں۔

کھانے پینے کی اشیاء سستی اوروافر ہیں‘ لوگ گھروں میں پھل دار درخت ضرور لگاتے ہیں‘ فرغانہ کے ہر گھر میں انگور کی بیل تھی‘ گوشت بہت سستا اور سبزیاں ارزاں ہیں‘ گاڑیاں بھی سستی ہیں اور زیادہ تر لوگ ذاتی کاروں کے مالک ہیں‘ حکومت عوام کو گھر بنا کر دیتی ہے‘ میں نے ہر شہر کے باہر نئے سرکاری گھر دیکھے‘ یہ گھر حکومت نے بنائے تھے اور ان میں زندگی کی تمام سہولتیں موجود تھیں‘ لوگ لبرل ہیں‘ یہ مسجدوں میں بھی جاتے ہیں اور شہر میں کلب اور شراب خانے بھی عام ہیں‘ مساجد بہت خوبصورت اور جدید ہیں‘ قاری خوبصورت لہجے میں تلاوت کرتے ہیں‘ خطبہ حکومت کی طرف سے آتا ہے‘ تمام مساجد میں عملہ حکومت مقرر کرتی ہے‘ لاؤڈ اسپیکر کی آواز مسجد کے احاطے سے باہر نہیں جاتی‘ لوگ نماز صرف مسجد یا گھر میں پڑھ سکتے ہیں‘ سرِعام اور دفاتر میں نماز پر پابندی ہے‘ تبلیغ اور دوسروں کے مذہبی عقائد پر تنقید کی اجازت نہیں‘ مدارس حکومت کے کنٹرول میں ہیں‘ ملک میں مذہبی سیاسی جماعت نہیں بنائی جا سکتی‘ مذہبی لوگوں کی سیاست میں شمولیت پر بھی پابندی ہے۔

ریاست کا عوام پر کنٹرول مضبوط ہے‘ میں سات مرتبہ ازبکستان گیا‘ میں تقریباً پورا ملک گھوم چکا ہوں‘ میں نے آج تک کسی شخص کولڑتے‘ جھگڑتے‘ الجھتے نہیں دیکھا‘ میں نے کسی کو اونچی آواز میں بات کرتے بھی نہیں دیکھا‘ آپ کو ملک میں ہر جگہ خواتین دکھائی دیتی ہیں‘ خواتین محلے کی دکان سے لے کر سپر اسٹور تک کام کرتی نظر آتی ہیں‘ یہ شام کو گھر کا کام بھی کرتی ہیں‘ تعلیم اچھی اور معیاری ہے‘ طالب علم یونیورسٹی سطح کی تعلیم آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں‘ پاسپورٹ ان کی واحد شناختی دستاویز ہے‘ بیگم کا نام اور بچوں کی تعداد تک پاسپورٹ میں درج ہوتی ہے لہٰذا وہاں کوئی شخص خود کو کنوارہ ڈکلیئرنہیں کر سکتا‘ یہ لوگ صفائی کے بہت پابند ہیں‘ یہ گھر بھی صاف رکھتے ہیں اور محلہ اور شہر بھی۔ یہ اجتماعی صفائی کو حشر کہتے ہیں‘ یہ لوگ قومی تہواروں سے قبل باہر نکلتے ہیں اورپورے شہر کو صاف کردیتے ہیں۔

محلے کے لوگ بھی گھر کی تعمیر کے دوران ہمسایوں کو حشر کے لیے بلا سکتے ہیں‘ لوگ ان کی آواز پر اکٹھے ہوتے ہیں اور مل کر کاٹھ کباڑ اور کچرہ ٹھکانے لگا دیتے ہیں‘ لوگ موسیقی‘ رقص اور عبادت تینوں کے رسیا ہیں‘ یہ راتوں کو سجدے‘ تلاوت اور تسبیح بھی کرتے ہیںاور شادی‘ بیاہ‘ عقیقہ اور نو روز کے دنوں میں جی بھر کر گاتے اور ڈانس بھی کرتے ہیں‘ صدر اور وزیراعظم بھی گانے اور ڈانس میں پیچھے نہیں رہتے‘ یہ بھی اسٹیڈیم میں عوام کے سامنے ناچ رہے ہوتے ہیں‘ یہ ملک آزادی کے بعد اوپن ہوا تو دنیا بھر کے عیاشوں نے سستی عیاشی کے چکر میں ازبکستان کا رخ کر لیا‘ حکومت کو جلد ہی احساس ہو گیا چنانچہ اس نے کنٹرول شروع کر دیا‘ ملک میں اب زیادہ تر قحبہ خانے‘ شراب خانے اور رقص گاہیں بند ہو چکی ہیں‘ مساج کے نام پر ہونے والی عیاشی بھی ختم ہو چکی ہے لہٰذا ازبکستان میں اب صرف تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ آتے ہیں اور یہ سیدھا خیوا‘ بخارا‘ سمر قند‘ شہر سبز اور فرغانہ جاتے ہیں اور تاریخ کو کروٹیں بدلتے دیکھتے ہیں‘ یورپ سے سیکڑوں فلائیٹس آتی ہیں اور سیاح بخارا اور سمرقند میں ڈوبتے طلوع ہوتے سورج کا نظارہ کرتے ہیں۔

چار دسمبر کو ازبکستان میں صدارتی الیکشن تھا‘ حکومت نے دنیا بھر سے ساڑھے تین سو آبزرورزکو الیکشن کے مشاہدے کے لیے بلایا‘میں بھی ان آبزرورز میں شامل تھا‘ الیکشن کمیشن نے آبزرورز کی دلچسپی کو سامنے رکھ کر میزبانی کے لیے مختلف اداروں کو خطوط لکھ دیے تھے‘ اداروں نے اپنے بہترین افسر الیکشن کمیشن کے حوالے کر دیے‘ یہ افسر آبزرورز کے میزبان تھے‘ حکومت نے ہر مہمان کو ترجمان کی سہولت بھی دی‘میزبان اور ترجمان نے مہمان کو ائیر پورٹ سے لیا اوریہ واپس جانے تک ان کے ساتھ رہے‘ مجھے حکومت نے اسلامک یونیورسٹی کے ڈین عثمانوف ابراہیم اور انگریزی کے پروفیسر ارمان کی میزبانی میں دے رکھا تھا جب کہ قرشی میں ایک صحافی‘ شہر سبز میں جوڈوکراٹے کے ایک ٹرینر اور فرغانہ میں نفسیات کے ایک پروفیسر میرے میزبان تھے‘ یہ تمام لوگ پڑھے لکھے‘ تہذیب یافتہ اور محبت سے لبریز تھے‘ میں پوری زندگی اپنے میزبانوں کی مہمان نوازی نہیں بھول سکوں گا۔

ازبکستان ’’ایک بار دیکھا ‘ دوسری بار دیکھنے کی تمنا ہے‘‘ کا جیتا جاگتا ثبوت ہے‘ میں سات مرتبہ ازبکستان گیا ‘ میں سات سو مرتبہ وہاں جانا چاہتا ہوں لیکن مجھے یقین ہے میری پیاس اس کے باوجود نہیں بجھ سکے گی‘کیوں؟ کیونکہ ازبکستان اسلامی دنیا کا ماضی ہے اور ماضی کی پیاس کبھی نہیں بجھتی۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website