اسلام آباد (ویب ڈیسک )وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے سینیٹ کے اجلاس میں کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے مختص بجٹ میں 9 ارب ڈالر کا خسارہ ظاہر کیا گیا تھا ٗ جسے پورا کرنے کیلئے قرض لینا پڑ سکتا ہے۔سینٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ دیکھا گیا
کہ 5 سال میں درآمدات میں بے انتہا اضافہ ہوا جبکہ برآمدات کم ہوتی چلی گئی جس کے باعث پیدا ہونے والے خلا کوحکومت نے قرضوں سے پر کیا۔انہوںنے کہاکہ ہم اس کی بنیادی وجہ کو ختم کرنے ککوشش کررہے ہیں تاہم اس سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات پر عملدرآمد ہونے میں کچھ عرصہ درکار ہوگا۔سینیٹ میں سینیٹر شیری رحمن کی جانب سے توجہ دلاؤ نوٹس پر جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ پاکستان پہلی مرتبہ ایف اے ٹی ایف کے زمرے میں نہیں آیا اس سے قبل 2008 اور 2012 میں پاکستان کو بلیک لسٹ کیا جاچکا ہے۔انہوںنے کہاکہ اس مرتبہ نظر ثانی کے بعد انہو ں نے پاکستان کو بلیک لسٹ نہیں البتہ گرے لسٹ میں شامل کیا ہے ٗجو وفد 13 اگست سے 16 اگست تک آیا ہوا تھا اس کا تعلق پاکستان کے گرے لسٹ سے تعلق نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ مذکورہ معاملے ہر 3 ماہ بعد نظر ثانی کی جائے گی جس کا پہلا اجلاس جکارتہ میں ہوگا ۔اس ضمن میں بین الاقوامی تنظیم کی جانب سے 5 مختلف کیٹیگریز میں 27 خامیوں کی نشاندہی کی ہے جس میں سے 3 اہم معاملات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ کرنسی اسمگلنگ، حوالہ ہنڈی کے
ذریعے رقم کی منتقلی، اور کالعدم تنظیموں کو رقم کی فراہمی پر انہوں نے تحفظات کا اظہار کیا۔اسد عمر کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وزیر خزانہ کی سربراہی میں نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی تشکیل دی جاچکی ہے جس میں ایف آئی اے نیکٹا سمیت تمام اہم ادارے موجود ہیں۔انہوںنے کہاکہ ہمارے پاس 15 مہینے ہیں اس سے قبل پاکستان کو ان 27 خامیوں پر قابو پانا ہے جس کے بعد نظر ثانی کیا جائے گی اور پاکستان واپس وائٹ لسٹ میں آسکتا ہے۔انہوںنے کہاکہ عالمی تنظیم نےجن معاملات کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا وہ اقدامات کرنا ہمارے ہی مفاد میں ہے۔اس سے قبل برطانوی ادارے بلوم برگ کو انٹرویو دیتے ہوئے اسد عمر نے ملک کی اقتصادی حالت کو ابتر قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ قومی خزانے کے لیے 6 ہفتوں میں 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔اسد عمر نے کہا کہ اگر یہ رقم فراہم نہیں کی گئی تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی حالت ابتر ہوتی چلی جائیگی۔وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ اس کثیر رقم کے حصول کے لیے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے بھی رابطہ کیا جائے گا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بانڈز بھی جاری کیے جاسکتے ہیں