لاہور (ویب ڈیسک) مودی ظلم، 14دن ہو گئے، ان دو ہفتوں میں، پاکستان کی ہر سطح پر مذمت، کور کمانڈر کانفرنس مضبوط اعلامیہ، قومی سلامتی کونسل کے دو اجلاس، سفارتی تعلقات نیچے لانا، تجارت ختم کرنا، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، متفقہ قرارداد، دوست ممالک سے رابطے، عالمی رہنماؤں کو ٹیلی فون، ٹرمپ، عمران گفتگو، نامور کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔وزیراعظم کے مسلسل بیانات، ٹویٹس، مظفر آباد جا کر کہنا ’’مودی تمہاری اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے‘‘،50سال بعد سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر آنا، اسلامی سربراہی کانفرنس کیلئے رابطے، ویسے تو 14دنوں سے سخت کرفیو میں گھروں میں نظر بند، خوراک، دوائیوں سے محروم، دنیا بھر سے کٹ چکے مظلوم کشمیریوں کیلئے یہ بھی کم، زیادہ ہونا چاہئے تھا مگر 57اسلامی ممالک نے تو یہ بھی نہ کیا، انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ، برطانیہ، یورپ نے تو اس سے آدھا بھی نہ کیا، مسلم امہ کارویہ، دنیا کا ردِعمل افسوسناک۔مگر سوچوں مسلم امہ سے توقع ہی کیوں، 1967میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کیا، او آئی سی نے کیا کر لیا، فلسطین، شام، عراق، لیبیا تباہ ہو گئے، یمن، لبنان برباد ہو رہے، 70سالوں سے کشمیریوں پر کیا کیا ظلم نہ ہوئے، 57ممالک، ایک ارب 80کروڑ آبادی کی نمائندہ، اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی تنظیم‘ او آئی سی نے کیا کر لیا، ہمیں اس وقت سمجھ جانا چاہئے تھا جب او آئی سی کے یو اے ای اجلاس میں بھارت آ بیٹھا، ہمیں تب سمجھ جانا چاہئے تھا جب او آئی سی مکہ ڈیکلیریشن سے کشمیر نکلا، سب مفادات کا چکر، بھارت، ترکی تجارت 7ارب ڈالر، بھارت، ملائیشیا تجارت 17ارب ڈالر، ایران بھارت کو خام تیل دینے والا دوسرا بڑا ملک، بھارت، ایران تجارت سوا 13ارب ڈالر، چا بہار بندرگاہ، فوجی معاہدے الگ، ایک عرب ملک اپنا سب سے بڑا ایوارڈ مودی کو دے چکا، بھارت، یو اے ای تجارتی ہدف 550ارب ڈالر، بھارتیوں کے 55ارب ڈالر تو ایک خلیجی ریاست کے رئیل اسٹیٹ برنس میں، امارات میں اتنے بھارتی کہ 3اماراتی چوتھا بھارتی، برادر عرب ملک بھی اپنا سب سے بڑا ایوارڈ مودی کو دے چکا، یہ بھارت کا چوتھا بڑا پارٹنر، بھارت اپنے تیل کی 20فیصد ضرورت اسی ملک سے پوری کر رہا، 35لاکھ بھارتی برادر عرب ملک میں کام کررہے، 2015میں بھارتیوں نے اس مسلم ملک سے 10ارب 50کروڑ کا زرمبادلہ بھیجا، ابھی عرب تیل کمپنی آرامکو کی بھارت میں 75ارب ڈالر کی سرمایہ کاری، ایک اندازے کے مطابق 70لاکھ بھارتی خلیجی ممالک میں کام کر رہے، اگر مسلم امّہ بھارت سے تجارتی بائیکاٹ کی دھمکی ہی دے دے، بھارتیوں کو اپنے ملکوں سے نکلنے کا الٹی میٹم ہی دیدے تو دیکھئے مودی اور بھارت کا حال، مگر یہ اتحاد ،ہم اتنے خوش نصیب کہاں۔یہ مسلم امہ، باقی دنیا کا حال ملاحظہ ہو، امریکہ بھارت کا جوہری پارٹنر، سب سے زیادہ فوجی مشقیں کرنے والا، ڈیڑھ ارب ڈالر تک تجارت پہنچی ہوئی، ایک لاکھ 86ہزار تو صرف بھارتی طلبہ امریکہ میں۔ روس‘ بھارت اپنے اسلحے کا 60فیصد اس سے خریدے، ایٹمی بجلی گھروں، جدید اسلحے کی تیاری میں دونوں پارٹنر، سینکڑوں تجارتی معاہدے، بھارت، چین تجارت 100بلین ڈالر تک پہنچ چکی، چینی سرمایہ کار 85بلین ڈالر سرمایہ کاری کرنے کی تیاری میں، اب ایک طرف ہماری 72سالہ پالیسیوں کی فصل ہمیں عالمی تنہائی کی صورت میں کاٹنا پڑ رہی، دوسری طرف بھارت دنیا کی پُرکشش منڈی جہاں دنیا کی اتنی بڑی سرمایہ کاری، مظلوم کشمیریوں کی بھلا کون سنے گا لیکن کچھ اچھا بھی ہوا، جیسے گزرے دو ہفتوں میں مقبوضہ کشمیر پر اتنی بات ہو چکی جتنی 70برسوں میں نہ ہوئی، جیسے واشنگٹن پوسٹ کہہ رہا ’’بھارت اب سیکولر نہیں رہا‘‘، نیویارک ٹائمز کہہ چکا ’’بھارتی حکومت بدمعاش بن گئی‘‘، آبزرور کا خیال ’’مودی تباہی کے راستے پر‘‘، گارجین کا کہنا ’’کشمیریوں کو ہندو توا کا سامنا‘‘، دی گلوب کا اداریہ ’’مودی فاشسٹ‘‘ بی بی سی کئی بار کہہ چکا ’’مقبوضہ وادی میں ظلم کی اخیر ہو چکی‘‘، جیسے 70برسوں میں پہلی بار حریت کانفرنس، کشمیری عوام، فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی سب ایک پیج پر، جیسے بھارت میں لوگ بول رہے، احتجاج کر رہے، جلسے، جلوس نکال رہے، جیسے بھار ت کی چھوٹی، بڑی 50علیحدگی پسند تحریکوں میں جان پڑ چکی، خالصتان کا نقشہ جاری ہونا، ناگا لینڈ میں علیحدہ جھنڈا، اپنا ترانا سامنے آگیا مگر کیا یہ کافی، جواب نہیں، جب تک عملی طور پر مسلم دنیا، امریکہ، برطانیہ، یورپ مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے، بات نہیں بنے گی۔ایک سوال یہ بھی، کیا اقوام متحدہ بھارت کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے، ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، بھارت خود اقوام متحدہ گیا، خود ہی ہر شے سے مکر گیا، تاریخ بتائے، 17جنوری 1948، سلامتی کونسل قرارداد38، دونوں ممالک اشتعال انگیز بیانات سے گریز کریں، 20جنوری 1948، اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر پر 3رکنی کمیشن بنادیا، 3جون 1948، قرارداد 51، کمیشن کو کام تیز کرنے، پاک بھارت سے رابطے کی ہدایت، 13اگست 1948، قرارداد پاک بھارت سیز فائر کریں، 5جنوری 1949، سیز فائر، فوجیوں کی واپسی، رائے شماری، قراردادمنظور ہوئی، 14مارچ 1950، قرارداد80، دونوں ملک امن و امان کیلئے ضروری اقدامات کریں، 12اپریل 1950، اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر پر سراون ڈکسن کو نمائندہ مقرر کر دیا، پھر مشہور و معروف ڈکسن رپورٹ آئی اور پھر 65، 71کی جنگوں میں اقوام متحدہ میں کشمیر زیرِ بحث آیا، مگر کچھ حاصل وصول نہ ہوا۔یہاں سوال یہ بھی، کیا ہم لڑ کر کشمیر لے سکتے ہیں، بلاشبہ جنگ، شہادت مسلمان کا زیور، اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کیلئے لڑنا پڑا تو لڑیں گے مگر ایک تو جنگ آخری آپشن، دوسرا سوچنے کی بات یہ بھی، جنگوں سے کسی کو کیا ملا، ایران، عراق لڑے، جنگ سے کیا حاصل ہوا، کیا عربوں نے لڑ کر فلسطین لے لیا، شام، لیبیا، یمن، لبنان کو لڑائیوں سے کیا ملا، 30چالیس سالہ بھانت بھانت کی لڑائیوں کے بعد افغانستان کو کیا ملا، اللہ نہ کرے، جنگ ہو، پونے دو ارب انسانوں والے دونوں ملک، اس خطے اور دنیا کیلئے یہ تباہ کن، ہوش، صبر، تحمل، حکمت، ذرا سا جذباتی پن، چنگاری نے آگ پکڑ لی تو اگلے سوسال دنیا اس تباہی کی داستانیں سناتی ملے گی۔