اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پی آئی اے کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار کو نہیں چھوڑیں گے۔
سپریم کورٹ میں پی آئی اے نجکاری کیس کی سماعت ہوئی۔ مشیر ہوا بازی سردار مہتاب عباسی اور سابق مشیر ہوا بازی شجاعت عظیم عدالت میں پیش ہوئے۔ ماہر معاشیات فرخ سلیم نے پی آئی اے کے 2008-2017 کے مالی معاملات پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 2008 سے اب تک 360 ارب تک کا مجموعی نقصان ہوا، آمدن سے زیادہ اخراجات خسارے کی وجہ ہے، 88 فیصد خسارہ گزشتہ دس سال کا ہے، نقصان کی وجہ سیاسی اثررسوخ، پیکج اور ایسوسی ایشن پالیسی ہے، گزشتہ 10 سال میں پی آئی اے میں تقریاں سیاسی بنیادوں پر ہوئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیکس کے پیسے کو پی آئی اے والے کھاتے جا رہے ہیں، 2013 سے لیکر 2016 سے جہاز لیز پر لیے گئے، لیز پر جہاز لیکر گراؤنڈ کر دیئے گئے۔ فرخ سلیم نے بتایا کہ لیز کے جہاز گراؤنڈ ہونے سے 6.67 ارب روپے نقصان ہوا، 2013 میں پی آئی اے کے دو لاکھ 87 ہزار ٹکٹس مفت بانٹے گئے جس سے پانچ ارب کا نقصان ہوا، 2016 میں پی آئی اے کے میڈیکل اخراجات 3 ارب روپے کے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پی آئی اے کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار کو نہیں چھوڑیں گے، پراسیکوٹر نیب یہاں موجود ہیں آپ بھی معاملے کو دیکھیں، کیا پی آئی اے کے سابق ایم ڈیز ان سوالات کا جواب مجموعی طور پر دینگے یا الگ الگ؟، کیا یہ معاملہ نیب کو بھجوا دوں؟۔
چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود شجاعت عظیم کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ شجاعت عظیم آپ عدالت میں جیب سے ہاتھ نکال کر کھڑے ہوں، آپ ملک سے باہر نہیں جا سکتے، یہ سب نقصان آپ کے دور میں ہوا، عدالت تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے گی، پی آئی اے کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا، ہر آدمی کہتا ہے ملک کا نقصان نہیں کیا، کیا آسمان سے فرشتے آکر اربوں روپے کھا گئے، شجاعت عظیم بتانا پڑے گا آپ کی مشیر ہوا بازی تقرری کیسے ہوئی؟ اس ملک کا ایک پیسہ جانے نہیں دیں گے، کیٹرنگ کے ٹھیکے کس کو دیئے گئے ہیں معلوم ہے، کس نے ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی سب معلوم ہے۔
عدالت نے ڈاکٹر فرخ سلیم کی 10 سالہ جائزہ رپورٹ پر پی آئی اے کے سابق ایم ڈیز سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے شجاعت عظیم کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شجاعت عظیم کیخلاف تحقیقات کرکے ریفرنس فائل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مہتاب عباسی آپ کو میں تحقیقاتی کمیٹی کا چیئر مین بنا دوں تو مہتاب عباسی نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں کمزور آدمی ہوں یہ کام نہیں کر سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہو سکتا ہے تحقیقاتی کمیٹی کا چیئرمین خود بن جاؤں۔ کیس کی سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کردی گئی۔