پیپلز پارٹی تحریک انصاف کا تجویز کردہ سینیٹ چیئرمین تو لے آئی، اور اس کا کریڈٹ اپنے نام کرکے اینٹ سے اینٹ بجانے والوں کے پائوں پڑگئی ہے۔ یہ فیصلہ اس کی جمہوری ساکھ پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی جو پہلے ہی عوام میں بنیادی حقوق کے حوالے سے اپنا ماضی کا کردار کھو رہی ہے، وہ اس طرح کا غیر جمہوری کردار اور اسٹیبلشمنٹ کے کیمپ میں کھڑی ہو کر سیاسی داؤ پیج کھیل رہی ہے جو کہ اس کی نظریاتی سیاست کے خلاف ہے۔ بلوچستان اور سینیٹ الیکشن کے بعد زرداری پنجاب میں سرمایہ کاری کے ذریعے اور اسٹیبلشمنٹ کندھوں پر سوار ہو کر عوام میں ووٹ مانگیں گے اور پیپلز پارٹی جوڑ توڑ اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے ذریعے کچھ سیٹیں تو ضرور حاصل کر سکے گی مگر یہ سارا عمل اس کی نظریاتی ساکھاور غیر جمہوری قوتوں کے آگے ڈٹ جانے کی پہچان کھو بیٹھے گا۔ زرداری تو اپنی سیاسی اننگز کھیل گئے مگر بلاول کو ایک ایسے سیاسی ماحول میں چھوڑ جائیں گے جہاں پیپلز پارٹی کی پہچان اسٹیبلشمنٹ سے لڑ جانے اور بنیادی حقوق و آئین کی خاطر کوڑے کھانے والی عوامی جماعت کی بجائےڈرائنگ روم کی کنگز پارٹی کی ہو گی۔
اگر پنجاب کو ن لیگ سے چھیننے کے زرداری کے دعوؤں کو انتخابی سیاست میں پرکھا جائے تو ہر ضمنی الیکشن اس جماعت کی انتخابی مقبولیت کا بھانڈہ پھوڑ رہا ہے۔ ماضی کی پیپلز پارٹی کی بجائے زرداری کی جماعت اب ہزاروں نہیں بلکہ سینکڑوں ووٹوں تک محدود ہو گئی ہے، اعدادو شمار کے مطابق ملک بھر کے 18 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز کنٹونمنٹ بورڈز کے بلدیاتی انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا، کل 18 سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا، اس الیکشن میں مسلم لیگ ن پہلے، تحریک انصاف دوسرے، پیپلز پارٹی کے ووٹ ایم کیوایم سے بھی کم تھے اور اس کے 57 میں سے صرف سات امیدوار کامیاب ہوسکے تھے۔
پیلز پارٹی کی حکومت کی نسبت موجودہ حکومت نے عوام کو ڈلیوری کیا، عوام کو کچھ دیا ہے، چھینا نہیں، کام کیا ہے، سندھ کی نسبت پنجاب اورخیبر پختونخوا میں ترقیاتی کام ن لیگ اور پی ٹی آئی کو چند ماہ بعد آنے والے الیکشن میں فائدہ پہنچائیں گے۔ وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وفاقی ادارہ شماریات کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار یعنی شرح نمو 5.28 فیصد ہے جو کہ گزشتہ 9 برسوں کے دوران سب سے زیادہ ہے۔ مالی سال 07-2006 کے دوران پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار سب سے زیادہ یعنی 6.8 فیصد تھی۔ موجود حکومت نے اپنے دور میں معاشی ترقی (شرح نمو) کا ہدف 6 فیصد مقرر کیا تھا جو کہ حاصل نہیں کیا جا سکا، جبکہ 14-2013 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 8.62 فیصد تک تھی؛ لیکن موجودہ حکومت اس میں خاطرخواہ کمی کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
مالی سال 16-2015 میں مہنگائی کی رفتار 2.82 فیصد تک کم ہو گئی تھی لیکن اس کے بعد سے اس میں اضافہ دیکھا گیا۔ جنوری 2018 میں مہنگائی کی شرح 4.4 فیصد تک تھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہو گا۔ 13-2012 کے بعد سے حکومت مالی خسارے (حکومت کی آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق) میں بھی خاطرخواہ کمی کرنے میں کامیاب رہی۔ آغاز میں مالی خسارہ 8.2 فیصد تھا جو کہ گزشتہ مالی سال 5.8 فیصد رہا۔ لیکن آئی ایم ایف کی رپورٹس کے مطابق رواں مالی سال حکومت کا بجٹ خسارہ 6 فیصد رہنے کا امکان ہے، جب کہ اس کا ہدف 4.1 فیصد رکھا گیا تھا۔ آئی ایم ایف نے بھی مالی خسارے کو کل ملکی پیدوار 6.3 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ غیرملکی ززِمبادلہ کے ذخائر 14-2013 میں 15.8 ارب ڈالر تھے جو کہ گزشتہ مالی سال کے دوران بڑھ کر 19.35 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کے دوران کی نسبت مسلم لیگ ن کی حالیہ حکومت کے دور میں ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ حکومتی معاشی پالیسی کی اہم ترین کامیابی تھی۔ لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی دیکھی گئی ہے جو کہ اس وقت حکومت کے لیے سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے دور میں ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکس کلیکشن پانچ سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ حکومت نے مالی سال 19-2017 کے دوران ٹیکس ریونیو کا ہدف 40 کھرب روپے رکھا ہے۔
اس بار جو الیکشنز ہونے جارہے ہیں وہ ماضی سے قدرے مختلف ہوگا، عوام بھی اب وہ نہیں رہے کہ صرف نعروں اور لاروں پر ٹرخا دیا جائے، میڈیا پر سب کی نظر ہے اور میڈیا کی سب پر۔ الزامات، توہمات کی بجائے کارکردگی ووٹ کا پیمانہ رہا تو زرداری صاحب کا خواب پورا ہوتا مشکل نظر آرہا ہے۔