اسلام آباد(ویب ڈیسک) تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔پروگرام ویوزمیکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کارلیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ پاکستان پر اس بات کا پھر دباؤ آسکتا ہے کہ طالبان کو بات چیت کے لیے آمادہ کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ نہیں ہوا تھا اس لیے دونوں نے ایک دوسرے کے اوپر حملے جاری رکھے ہوئے تھے۔تجزیہ کار ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ مذاکرات کی معطلی یا ناکامی میں پاکستان کا براہ راست کوئی کردار نہیں ہے اس لیے پاکستان پر ذمہ داری بھی نہیں ڈالی جائے گی۔تجزیہ کار ضیغم خان نے کہا کہ امریکہ کے پاس افغانستان سے نکلنے کے لیے واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں اس لیے یہ سلسلہ تھوڑے عرصے کے لیے معطل ہوسکتا ہے لیکن بند نہیں ہوسکتا۔سینیئر تجزیہ کار ناصربیگ چغتائی کا کہنا تھا کہ ابھی تک کی صورتحال میں امریکہ کسی صورت بھی پاکستان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتا ہے۔تجزیہ کار رضا رومی نے کہا کہ اب حالات ماضی سے مختلف ہیں اس لیے پاکستان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے، امریکہ جس امن کے لیے کوشاں ہے اس کے لیے اسے پاکستان کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی خاموشی سے متعلق سوال کے جواب میں امجد شعیب نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، وہاں اس بات کا احساس موجود ہے کہ بھارت ظلم کر رہا ہے لیکن وہ کسی طرح کی عملی کارروائی میں رکاوٹ بھی بنا ہوا ہے۔ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اب تک کی صورتحال حوصلہ افزاء ہے لیکن پاکستان کو مزید سفارتی سرگرمیاں دکھانی ہوں گی۔ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے مظالم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور یہ بات عالمی رائے عامہ میں بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔رضا رومی کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ بطور خود کوئی ادارہ نہیں ہے بلکہ یہ بڑی طاقتوں کا مجموعہ ہے اور ان کی زیادہ ترجیح معاشی مفادات ہوتے ہیں۔ضیغم خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد یہی تھا کہ کشمیر جیسی صورتحال دنیا میں پیدا نہ ہو لیکن یہ اس ادارے کی ناکامی ہی ہے کہ ایک بار پھر کشمیر میں ایسی ہی صورتحال بنی ہوئی ہے۔