خدا خدا کرکے اس حکومت نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ پہلے انتخابات پر شکوک تھے تاہم سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے سے اُن کو ختم کر کے الیکشن کے بروقت انعقاد کی راہ ہموار کر دی ہے۔ یہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ تحریک انصاف نے گزشتہ سالوں میں ایکٹیو اور بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پی ٹی آئی اگلی حکومت کےلیے فیورٹ قرار دی جا رہی ہے۔ تاہم، کیا یہ اتنا ہی آسان ہے؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔
کیوں؟ کیونکہ جنہوں نے پی ٹی آئی کو الیکٹیبلز کی فوج فراہم کی ہے، الیکیٹیبل سے مراد وہ شخصیت ہوتی ہے جس کے پاس ہر وقت 18، 20 ہزار ووٹ ہوتا ہے۔ تاہم اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ الیکٹیبل الیکشن ہرصورت جیتے گا‘وہ ہار بھی سکتا ہے۔ ’’اُن‘‘ کے پلان کے مطابق تو اِس وقت تک مسلم لیگ ن کا حال بھی ایم کیو ایم جیسا ہو جانا چاہئے تھا کہ اُس کا شیرازہ بکھر چکا ہو اور پارٹی تتر بتر ہو۔
لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ فیصلہ سازوں کے اندازے سے کم سیاسی شخصیات نے مسلم لیگ ن کو خیرباد کہا ہے اور نواز شریف کو عوام کی جانب سے ٹھیک ٹھاک ہمدردی بھی مل رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ قوتیں الیکشنز میں کچھ مہینوں کے التواء کی خواہش مند ہیں۔ لیکن، کیا یہ فیصلہ درست ہوگا؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔ کیونکہ مسلم لیگ ن کے جلسے نواز شریف کو آکسیجن فراہم کر چکے ہیں اور کوئی بھی ایسی حرکت نواز شریف اور اس کی پارٹی کو مزید مضبوط کرے گی۔
پنجاب کی سیاست مرکزی سیاست کا ایک اہم فیکٹر ہے۔ کہتے ہیں کہ جو جی ٹی روڈ کو فتح کر لے، وہ حکومت سازی کر سکتا ہے۔ کیونکہ سارے اہم شہر، علاقے اور حلقے اسی جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف ہیں۔ نواز شریف نے جب قوم کو ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا فقرہ دیا تھا تو وہ اسی جی ٹی روڈ کے کامیاب مارچ سے دیا تھا۔ اس سے قبل خان صاحب بھی اسی روڈ کا استعمال کر چکے ہیں۔ اگر غیر جانبداری سے دیکھیں تو جی ٹی روڈ کا فاتح تادم تحریر غیر واضح ہے۔ لاہور میں بھی صورتحال میں تبدیلی نظر آ رہی ہے جبکہ راولپنڈی کی صورتحال بھی تحریک انصا ف کے حق میں ہے۔
اسلام آباد میں البتہ یہ کہنا مشکل ہے۔ جنوبی پنجاب البتہ تحریک انصاف کے ساتھ ہے، تاہم اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ ن یہاں بھی پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دے گی۔ مرکز میں حکومت بنانے کےلیے پی ٹی آئی کو پنجاب سے90 سے 95 تک سیٹیں نکالنی ہوگی لیکن یہاں سے پی ٹی آئی کو 65 سے 70 سیٹیں ملنا بھی مشکل لگ رہا ہے۔ دوسری جانب سندھ میں پی ٹی آئی کا مقابلہ پیپلز پارٹی وغیرہ سے ہے۔ یہاں سے پی ٹی آئی کو بمشکل کامیابی ہوگی، کیونکہ خان صاحب نے بھی اس علاقے کو گزشتہ پانچ سالوں میں کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ اگر پی ٹی آئی یہاں سے معجزانہ طور پر 5 سے 8 سیٹیں نکال لے اور بلوچستان سے 2 سیٹیں بھی مل جائیں تو پی ٹی آئی خیبر سے مکمل ہار کے بھی مرکزی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوگی۔
خیبر میں پی ٹی آئی نے پانچ سالوں میں کیا کیا، اس کا اصل پتہ تو عام انتخابا ت کے ووٹ کریں گے۔ لیکن ابھی تک ملنے والی اطلاعات پی ٹی آئی کےلیے حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کا ٹھیک ٹھاک ووٹ بینک ایم ایم اے لے اڑے گی۔ پانچ سالہ حکومت میں ن لیگ کے پاس شو کرنے کےلیے بہت کچھ ہے لیکن پی ٹی آئی کے پاس حقیقی طور پر کچھ نہیں ہے۔ جن دو وزارتوں کی کارکردگی پر پی ٹی آئی خوش ہوسکتی تھی وہ دونوں جماعت اسلامی کے پاس تھیں اور یہ وہ جماعت ہے جس کو کام کرنا آتا ہے لیکن کریڈٹ لینا نہیں آتا۔
نواز شریف کو نا اہل کروانے میں جماعت اسلامی کی پٹیشن کا کردار ریڑھ میں ہڈ ی کی طرح کا تھا، لیکن بیچارے ایک ٹکے کا کریڈٹ نہیں لے سکے۔ اب بھی خیبر پختوانخواہ میں جماعت اسلامی کی بہت اچھی کارکردگی رہی ہے لیکن اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی خود ہی لینے کو تیار نہیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔
کیا اب پی ٹی آئی مرکز میں اکیلے حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی؟ شاید نہیں۔ اِس مفروضے کے درست ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں پی ٹی آئی کو مرکزی حکومت سازی کےلیے پیپلز پارٹی سے ہی ہاتھ ملانا ہوگا اور اس نقطے سے گیم ’’شاہ مفاہمت‘‘ آصف زرداری کے ہاتھ میں چلی جائے گی، جو اپنی کارکردگی کا مظاہرہ حالیہ سینٹ انتخابات میں کر چکے ہیں۔ وہ عمران خان کو وزیر اعظم بنوا بھی دیں گے لیکن اس کے بعد وہ پی ٹی آئی کے ساتھ کیا کچھ کریں گے، یہ سوچ کے ہی ہنسی آتی ہے۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو حالیہ سینیٹ کے انتخابات سے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں ’ہنگ پارلیمنٹ‘ کے امکانات زیاد ہ ہیں، کیونکہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے اصل حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کو پارلیمنٹ میں کسی ایک جماعت کی اکثریت سوٹ نہیں کرتی ہے۔