کراچی(ویب ڈیسک)سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مل کر پلان کریں تو اسلام آباد لاک ڈاؤن کرسکتے ہیں،اپوزیشن جانتی ہے کہ لاک ڈاؤن کی کال بھی سینیٹ الیکشن کی طرح بلف کال ہوجائے گی،امریکی صدر ٹرمپ پاک بھارت تناؤ کم کرنے میں سنجیدہ نظر آرہے ہیں،ٹرمپ کی ثالثی میں پاکستان کے حق میں فیصلہ نہیں ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار مظہر عباس، سلیم صافی، حسن نثار ، محمل سرفراز اور حفیظ اللہ نیازی نے جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان ابصاء کومل سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔پہلے سوال اپوزیشن کا اسلام آباد لاک ڈاؤن کیلئے 29اگست کو دوبارہ اے پی سی بلانے کا اعلان، کیا اپوزیشن جماعتیں حکومت کیخلاف وفاق کو لاک ڈاؤن کرنے میں کامیاب ہوں گی؟سلیم صافی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مل کر پلان کریں تو وفاق کو لاک ڈاؤن کرسکتے ہیں،لیکن اگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پر انحصار کرتے ہیں تو کچھ نہیں ہوسکے گا۔حسن نثار کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمنکے پاس مدرسے کے بچوں کو ڈھال بنانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔محمل سرفراز نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی جب تک سندھ میں حکومت ہے وہ وفاقی حکومت کو غیرمستحکم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، اپوزیشن جانتی ہے کہ لاک ڈاؤن کی کال بھی سینیٹ الیکشن کی طرح بلف کال ہوجائے گی۔ جہاں ساری دنیا کو اس بات کا احساس جلدہی ہو گیا تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک قابل اعتماد ساتھی نہیں ہے، نریندر مودی نے اس کے باوجود ہندوستان کے واشنگٹن سے رشتے مضبوط کئے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کی قیمت کیا ہوگی۔ان کے دوستانہ رشتے-جس کا تذکرہ ایک وقت پوری دنیا میں تھا-کے پھیکے پڑنے کے اشارے پہلے سے ملنے لگے تھے، لیکن اب یقیناً امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کا رشتہ ایک فیصلہ کن نقطہ پرپہنچ چکا ہے۔سوموار کو ٹرمپ کا یہ کہنا کہ پاکستان کے ساتھ کشمیر مسئلے کو سلجھانے کے لئے مودی نے ان کی مدد مانگی تھی، ہندوستانی خارجہ پالیسی کی نظر سے دیکھیں، تو تقریباً پیٹھ میں چھرا گھونپنے جیسا تھا۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ٹرمپ سچ بول رہے تھے، باتیں بنا رہے تھے یا محض تذبذب میں تھے۔اس بات کو سنبھالنا اس لئے اور مشکل ہے کیونکہ ٹرمپ نے یہ بات پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہی۔ اس بیان پر ہندوستان کی سرکاری طور پرکی گئی تردیداندازہ کے مطابق ہی آئی اور اس سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو فوری طور پر تھوڑا سیاسی نقصان اٹھانا پڑےگا۔لیکن مودی اور ان کے صلاح کاروں کی اس تکلیف کا کوئی فوری علاج نہیں ہے، جو وہ ٹرمپ پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے محسوسکر رہے ہوںگے-وہی بھروسہ جس کی وجہ سے ایران اور وینزویلا سے لےکر ایشیا اور سمندری علاقے کی حدبندی کو ہندوستانی خارجہ پالیسیوں کو واشنگٹن کے مطابق لایا گیا۔ٹرمپ نے کبھی چھپایا نہیں کہ ان کے لئے امریکہ کے مفادات پہلے ہیں۔ حیرانی کی بات وہ تیزی تھی، جس سے ‘ انڈیا فرسٹ ‘ پر یقین کا دعویٰ کرنے والے ان کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کا وہ معصومانہ اعتماد کہ اس عمل میں کسی نہ کسی طرح ہندوستانی مفادات کو دھیان میں رکھا جائےگا۔ ٹرمپ، جو دو سال پہلے تک پاکستان کو لےکر الگ راگ الاپ رہے تھے، ان کو اب احساس ہوا ہے کہ ایران اور افغانستان کو لےکر ان کی اسکیموں کے لئے امریکہ اور پاکستان کے نقطہ پر پائیداری کی ضرورت ہوگی۔ اصل میں یہی عمران خان کے امریکی دورے کا تناظر ہے اور ٹرمپ کی ثالثی کو لےکر دیا گیا بیان صاف طور پر اسی عمل کا نتیجہ ہے۔اس تنازعے کے ختم ہونے پر مودی اور ان کے صلاح کاروں کو دوبارہ شروع سے سوچنا چاہیے۔ امریکہ کے حق میں اتنے فیصلے لینا اور ماسکو، بیجنگ اور تہران سے اپنے رشتے کو اندیکھا کرنا سب سے بڑی غلطی تھی۔ ان سب کے علاوہ، پاکستان کو لےکر کوئی واضح اور منطقی پالیسی کی کمی نے جو صفر بنا دیا ہے