یہ بات ناقابلِ یقین محسوس ہوتی ہے کہ کسی انتخابی حلقے کی قسمت کا فیصلہ وہاں رہنے والی خواتین پر منحصر ہو لیکن کم از کم لیاری کی حد تک میں یہ کہنے میں خود کو حق بجانب محسوس کرتا ہوں کیونکہ لیاری کا شمار پاکستان کے ان گنے چنے حلقوں میں ہوتا ہے جہاں خواتین جوش و خروش سے پولنگ کے عمل میں شریک ہوتی ہیں۔ یعنی 25 جولائی کو وہی امیدوار کامیاب ہوگا جس کے حق میں لیاری کی خواتین کی اکثریت ووٹ دے گی۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور اس شہر کا سب سے پرانا علاقہ لیاری ہے۔ انتخابی اعتبار سے دیکھا جائے تو 1970 کے عام انتخابات کے بعد سے لیاری کو پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا تا جاتا ہے۔ یہاں سے بے نظیر بھٹو، آصف زرداری، واجہ کریم داد اور نبیل گبول جیسے لوگ کامیاب ہوچکے ہیں۔ لیاری کی آبادی کو دیکھا جائے تو اس علاقے میں بلوچ (جن میں دوہری شہریت کے حامل ایرانی اور اومانی کے علاوہ شیدی بھی شامل ہیں)، لاسی (بلوچستان ہی کے ضلع لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے سندھی)، کچھی، گجراتی اور میمن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ ان سب کے علاوہ اردو بولنے والوں اور میانوالی سے تعلق رکھنے والے نیازیوں کی بھی اچھی خاصی آبادی یہاں موجود ہے۔ کراچی کے ضلع جنوبی کے ایڈمنسٹریٹر ملک فیاض کا تعلق بھی نیازی برادری سے ہے۔
انتخابات 1985، 1988، 1990، 1993 اور 1997 میں لیاری کا علاقہ قومی اسمبلی کی نشستوں این اے 189 اور 190 میں منقسم تھا۔ این اے 189 سے 1985 کے غیر جماعتی عام انتخابات کے سوا، اس علاقے میں پیپلز پارٹی کبھی نہیں ہاری جب کہ این اے 190 سے پیپلز پارٹی کو صرف ایک بار 1993 کے عام انتخابات میں کامیابی ملی، وہ بھی شہر میں آپریشن کے باعث ایم کیو ایم کی جانب سے الیکشن کے بائیکاٹ کی وجہ سے۔ 2018 کی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں کی گئیں جن کے تحت ضلع جنوبی سے قومی اسمبلی کی 3 نشستوں (این اے 248، این اے 249 اور این اے 250) میں شامل علاقوں کو دو حلقوں یعنی این اے 246 اور این اے 247 میں ضم کردیا گیا ہے۔ لیاری کا پورا علاقہ این اے 246 میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ اس حلقے میں ایسے علاقے بھی شامل ہیں جو ایم کیو ایم کے روایتی گڑھ تھے لیکن یہاں پیپلز پارٹی کےلیے نرم گوشہ رکھنے والے بھی کم نہیں۔
لیاری میں رجسٹرڈ ووٹرز کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو یہ بات بھی نظر آتی ہے کہ پیپلز پارٹی لیاری سے صرف بلوچ ووٹرز کے ذریعے کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ علاقے میں جتنے بلوچ ہیں، کم و بیش اتنے ہی کچھی، میمن اور گجراتی بھی ہیں۔ پیپلز پارٹی جب بھی برسراقتدار آئی، اس نے لیاری کے بلوچوں کو سرکاری نوکریاں دے کر خصوصی طور پر نوازا جب کہ کچھی برادری نے 2008 کے عام انتخابات تک غیر مشروط طور پر پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا۔ 2008 کے بعد عبدالرحمان اور پھر عزیر بلوچ کی سربراہی میں جرائم پیشہ افراد پر مشتمل گروہ ’’امن کمیٹی‘‘ کے نام سے فعال تھا، جس نے کلری، آگرہ تاج کالونی اور بہار کالونی میں رہنے والے کچھیوں اور گھانچیوں کا ناطقہ بند کردیا تھا۔ اسی وجہ سے کچھی رابطہ کمیٹی بنائی گئی اور وہاں ایک مسلح تصادم بھی ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ کچھی رابطہ کمیٹی کو اس وقت ایم کیو ایم کی حمایت حاصل تھی۔ کے آر سی کے نام سے مشہور اس تنظیم کو اسلحہ بھی وہیں سے ملتا تھا۔
2013 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے عزیر بلوچ کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور اسی کے وفاداروں کو رکن قومی و صوبائی اسمبلی نامزد کیا گیا۔ روایتی طریقے سے عذیر بلوچ کے حمایت یافتہ یہ امیدوار جیت کر قومی و صوبائی اسمبلی میں بھی پہنچے لیکن علاقے میں رہنے والی کچھی آبادی اسے بھول نہیں پائی۔ چند روز پیشتر کچھیوں کے اسی علاقے میں بلاول بھٹو زرداری کی ریلی پر پتھراؤ بھی ہوچکا ہے، اگرچہ پیپلز پارٹی کے رہنما غیر رسمی طور پر اسے اسٹیبلشمنٹ کا کارنامہ کہتے ہیں لیکن یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ آگ بھی وہیں لگائی جاتی ہے جہاں حالات سازگار ہوں۔
عام جائزوں اور مقامی افراد کے مطابق لیاری میں اب بھی پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری ہے لیکن تعلیم ہافتہ اور مذہبی رجحان رکھنے والے بلوچ نوجوان ذہنی طور پر پی ٹی آئی یا متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) جب کہ کچھی اور میمن برادری کے افراد پی ٹی آئی یا تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو ووٹ دینے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں۔
ایم ایم اے اور تحریک لبیک پاکستان اس حلقے سے کامیاب تو نہیں ہوسکتی لیکن پیپلز پارٹی کے ہارڈ کور ووٹ بینک پر انتہائی کاری ضرب ضرور لگاسکتی ہے جس کا فائدہ غیردانستہ طور پر پی ٹی آئی کو ہوگا کیونکہ علاقے میں ایم کیو ایم اس قدر فعال نہیں رہی اور ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ایس پی کے کارکن بھی دلی طور پر اپنی ہی پارٹی قیادت کے ساتھ نہیں۔
لیاری کو کراچی کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے، یہاں کی خواتین کی بڑی تعداد گھر کا چولہا جلانے کےلیے دوسروں کے گھروں کی گندگی صاف کرتی ہے۔ چوں کہ بلوچ اور کچھی خواتین کی بڑی تعداد پوش علاقوں کے گھروں میں ملازمتیں کرتی ہے اس لیے ڈرائنگ رومز میں ہونے والی سیاسی گفتگو ان کے کانوں میں بھی پڑتی ہے جو ان کی ذہن سازی کرتی ہے۔ اسی گفتگو کے زیر اثر وہ خواتین عام طور پر علاقے میں ہونے والی تمام منفی سرگرمیوں کا ذمہ دار پیپلز پارٹی کو ٹھہراتی ہیں۔
ایک بار پھر یاد دلاتا چلوں کہ لیاری کا شمار پاکستان کے ان گنے چنے حلقوں میں ہوتا ہے جہاں خواتین جوش و خروش سے پولنگ کے عمل میں شریک ہوتی ہیں۔ اس طرح 25 جولائی کو وہی امیدوار کامیاب ہوگا جس کے کارکن صبح سویرے ہی سے خواتین کو پولنگ اسٹیشنز تک لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ کیونکہ کہا یہ جاتا ہے کہ خواتین کی ذہن سازی گھر سے نکلنے اور پولنگ اسٹیشن تک پہنچنے کے دوران آسانی سے کی جاسکتی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ میرا یہ اندازہ غلط ہو لیکن ہاتھ کنگن کو آرسی کیا اور پڑھے لکھے کو فارسی کیا۔ چاند چڑھے گا تو دنیا دیکھ ہی لے گی۔