تحریر : عفت
سرما کی چمکیلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔دسمبر کی سردی میں یہ دھوپ بہت غنیمت ہوتی ہے۔میں تمام کامں سے فراغت پا کر دھوپ سے لطف اندوز ہونے کے لیے آنگن میں آبیٹھی۔سامنے لگے شہتوت کے درخت پہ بیٹھی ایک چڑیا بیٹھی زرد پتے کو چونچ مار رہی تھی۔موسم کی شدت جس طرح انسانوں پر اثر انداز ہوتی ہے ،دوسرے تمام جاندار بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔ہلکی ہلکی گرمائش نے گویا سرد جسم میں خوشگوار سی حرارت بھر دی تھی اتنے میں دروازہ بجا میں نے کسلمندی سے اٹھ کر دروازہ کھولا توایک خاتون کو کھڑے پایا وہ سرمئی پرانی سی چادر میں لپٹی ہوئی کھڑی تھی اس کا چہرہ عجب نقاب میں ڈھکا ہوا تھا کہ محض ایک آنکھ دکھائی دے رہی تھی ۔میں نے اچھنبے سے اس عورت کی طرف دیکھا جی؟اس نے سلام کر کے اندر آنے کی اجازت چاہی ۔میں حالات کے پیش ِنظر تذبذب میں تھی کہ اسے اندر بلائوں یا نہیں ، شاید اس نے میری بے چینی بھانپ لی فورا بولی، باجی میں چور اچکی نہیں مصیبت کی ماری ہوں اور کام کی تلاش میں ہوں ۔آپ کی بڑی مہربانی مجھے کوئی کام دے دیں اس کے رندھے ہوئے لہجے اور اکلوتی نظر آنے والی آنکھ کے آنسو نے میرے سدا کے نرم دل کو موم کر دیا ۔میں نے اسے اندر آنے کا اشارہ کیا اور در بند کر کے پلٹی ۔وہ دھوپ میں بچھی چارپائی کے ایک کونے پر سمٹ کے بیٹھ گئی۔میں نے اس کا نام پوچھا ، اس نے اپنا نام زینت بتایا ۔کہاں سے آئی ہو۔
مطلب کہاں رہتی ہو؟ نہ چاہتے ہوئے بھی میرے لہجے میں تفشیشی عنصر ابھر آیا۔باجی وارڈ نمبر ٤ میں رہتی ہوں اس پاپی پیٹ کی مجبوری نہ ہوتی تو کبھی در در کی ٹھوکریں کھانے باہر نہ نکلتی یہ کمببخت ساتھ لگا نہ ہوتا تودھکے کھانے کو کس کا دل کرتا ہے۔اس کی فلسفیانہ گفتگو نے میرے اندر کے مصنف کو ہائی الرٹ کر دیا ۔میرے لہجے میں نرمی اور تجسس آگیا ،زینت تم اپنے بارے میں بتانا پسند کرو گی شاید میں کچھ مدد کر سکوں ؟ میرے سوال کے جواب میں اس نے اپنے چہرے سے چادر ہٹا دی میں یک دم سراسیمہ اور چپ ہو گئی ۔اس کا نصف چہرہ جھلسا ہوا تھا ایک آنکھ سلامت تھی اور دوسری بند ۔جھرجھری لے کر میں نے اس کے چہرے سے نظر ہٹا لی لمحہ بھر کی خاموشی چھا گئی اس نے چہرے کا دوبارہ ڈھک لیا ۔یہ سب کیسے ہوا؟ میں نے دکھ سے پوچھا ۔بس باجی مقدر کا لکھا کون ٹال سکتا وہ سر جھکا کے بولی ۔میں جانتی ہوں آپ ایک رائٹر ہیں اور میری کہانی جاننا چاہتی ہیں ۔اس کے لفظ رائٹر نے مجھے اور حیرت زدہ کر دیا تم پڑھی لکھی ہو؟ جی باجی میٹرک پاس ہوں ۔ہہم میں نے ہنکارہ بھرا ۔تم مجھے اپنے بارے میں بتائو پلیز میں نے اس کو ٹٹولا۔اور اس کی ہامی بھرنے پہ ہمہ تن گوش ہو گئی۔
میرا تعلق متوسط گھرانے سے ہے میں تین بھائیوں کے بعد پیدا ہوئی ۔ماں باپ اور بھائیوں کی لاڈلی تھی ۔پانچ سال کی تھی تو میری اماںحادثے میں چل بسی اور ابا کی ٹانگیں معذور ہوگئیں ،اماں ابا نے کسی کی زمین ٹھیکے پہ لے رکھی تھی وہاں سے واپس آرہے تھے کہ ٹرالی ٹرک سے ٹکرا گئی اس میں سوار اور لوگ بھی زخمی ہوئے مگر ہمارے گھر تو صف ِ ماتم بچھ گئی ۔مجھے تو سفید کفن میں لیٹی ماں کو دیکھ کر یقین نہیں آ رہا تھا کہ ستی سویر اٹھنے والی ماں اس وقت کیوں سو رہی ہے؟ ماں مجھے بھوک لگی روٹی پکا دے ،مگر میرا رونا اور فریاد کا اس پہ کوئی اثر نہ ہوا وہ اسی طرح پڑی سوتی رہی میں ابا کے پاس گئی جو زخمی حالت میں سسک رہا تھا اس نے مجھے گلے لگا لیا نجانے کب میں روتے روتے سو گئی۔صبح بہت عجیب تھی اماں بھی نہیں تھی اورابا کو بھائی اسپتال لے گیا تھا باقی چار وں بھائی کونے میں لگے بیٹھے تھے۔
پڑوس کی خالہ نے کھانا لا کر ہمارے سامنے رکھا ۔مجھے اماں ہی کھلایا کرتی تھیں میں ٹکر ٹکر ادھر ادھر دیکھ رہی تھی نظریں اماں کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔بھائی نے مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا اور نوالے بنا کے منہ میں ڈالنے لگا کھانا کھا کے میں کھیل میں لگ گئی ۔ابا اب بیساکھیوں کے سہارے چلتا تھا مگر کام کے قابل نہیں رہا دو بڑے بھائی سبزی کا ٹھیلا لگاتے تھے ،ابا نے ان کی شادی اپنی بھانجیوں سے کر دی تھی ۔ایک بھائی نے پانچویں کے بعد پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔وہ ہو وقت دوستوں میں رہتا کب آتا اور کب جاتا کسی کو پتہ نہ ہوتا۔میں گورنمنٹ سکول میںدسویں جماعت میں آگئی تھی۔امتحان ختم ہوئے تو بھابی نے کہا بس اتنی پڑھائی کافی ہے ہم نے کونسی نوکریاں کروانی ہیں کوئی رشتہ ڈھونڈو اور رخصت کرنے کا سوچو ۔دوسری بھابھی نے بھی ہاں میں ہاں ملائی ۔بھائی خیر سے پہلے ہی زن مرید تھے اور ابا بچارہ خود ان کے رحم کرم پہ تھا وہ کیا کہتا ۔میں خاموش ہو گئی اس روز مجھے اماں کی بہت یاد آئی ۔ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ۔جلد ہی میرا بر ڈھونڈ لیا گیا نہ مجھ سے کسی نے پوچھا نہ بتایا بعد میں پتہ چلا کہ بھائی کا کوئی دوست ہے۔
جلد ہی شادی ہوگئی اور میں ایک انجانے شہر آگئی ۔میرا شوہر جمیل صرف نام کا ہی جمیل تھا پکا رنگ،چالیس سال کی عمر ،گالی سے بات شروع کرتا اور گالی پہ ہی ختم کرتا ۔سسرال میں میری ساس دو بن بیاہی نندیں تھیں ۔قدم رکھتے ہی مجھے ان کے مزاج کا اندازہ ہوگیا ۔اگلے دن جمیل نے اپنے دوستوں کی دعوت کی اور مجھے کھانا تیار کرنے کا حکم ملا اور ساتھ تنبہیہ بھی کہ کھانا اچھا ہونا چاہیے۔میں نے بہت دل لگا کر کھانا پکایا پھر نہا کر کپڑے بدل کر تیار ہوگئی۔جمیل کی ماں اور بہنیں چارپائی پر چڑھ کے بیٹھی رہیں اور مجھے نا پسندیدہ نظروں سے دیکھتی رہیں۔
میرا شمار خوبصورت لڑکیوں میں ہوتا تھا خاص طور پر میرے بال بہت لمبے اور گھنے تھے ۔مہمانوں کی آمد پر جمیل اندر آیا میں تیار ہو چکی تھی اس نے پسندیدہ نگاہوں سے مجھے دیکھا میں شرما گئی جیسا بھی تھا اب وہ میرا شوہر تھا ۔چلو کھانا رکھو اس نے حکم دیا ،میں کھانا نکال دیتی ہوں آپ لے جائیں میں اٹھتے ہوئے بولی۔جمیل وہیں رک گیا اور گھورتے ہوئے بولا نہیں کھانا تم لے کر آئو گی۔بادلِ نخواستہ میں جھجکتے ہوئے اندر داخل ہوئی اور سلام کر کے کھانا رکھنے لگی پانی لانے کے لیے واپس آئی تو میرے کانوں میں ایک خباثت بھری آواز ابھری او جیلے بڑا اونچا اور ستھری جگہ ہاتھ مارا اب کے تو نے جواب میں جمیل کی زور دار ہنسی سنائی دی ۔مجھے ایک لمحے کے لیے جمیل کے دوستوں سے اور اس سے نفرت محسوس ہوئی کیسا مرد ہے اتنی بے ہودہ بات پہ ہنس رہا۔
وقت کا کام گذرنا ہے گذرتا جا رہا تھا میں سارا دن کام میں جتی رہتی اس پہ بھی ساس نندیں مجھے کھری کھری سناتیں اور میری شکایتیں لگا تیں جس پہ جمیل مجھے روئی کی طرح دھنک دیتا۔اسی وجہ سے دو دفعہ میں ماں بنتے بنتے رہ گئی اور وہ معصوم روحیں دنیا میں آنے سے پہلے ہی رخصت ہو گئیں ۔میرا کوئی پرسان ِ حال نہ تھا۔باپ اور بھائی تو گویا رخصت کر کے بھول گئے کبھی پلٹ کر خبر نہ لی کہ زندہ ہوں یا مر گئی ۔پانچ سال گذر گئے میری ساس مجھے بانجھ قرار دے کر بیٹے کی دوسری شادی کروانے کے درپے تھی میں ان کی نظر میں ایک نوکر سے ذیادہ کچھ نہ تھی ۔وہ قیامت کا دن آج بھی مجھے یاد ہے صبح سے مجھے بخار تھا ۔جمیل نے اپنی اماں سے کہا اسے سرکاری اسپتال لے جانا۔اسپتال میں پرچی بنوا کا ڈاکٹر کے کمرے میں گئی دوائی لکھوا کر پلٹی تو میری نظر اپنے چھوٹے بھائی پہ پڑی اس کو دیکھ کر میں سب بھول گئی اور اس سے جا لپٹی ماں جائے نے مجھے پہچان لیا میرے آنسو پونچھے ۔ساس نے کڑی نظروں سے مجھے گھورا تو بھائی نے آگے بڑھ کر اس کو سلام کیا اور حال پوچھا ۔ساس نے منہ بنا کر جواب دیا اور منہ پھیر کر کھڑی ہوگئی ۔بھائی کافی دیر تک باتیں کرتا رہا ابا اس دنیا میں نہیں رہا بھائی باہر ملک چلے گئے اور بھابھیاں بھی ساتھ لے گئے ۔میں ایک بار پھر رو پڑی بھائی نے بتایا وہ بھی کل مسقط جا رہا میڈیکل بنوانے آیا تھا۔
ساس نے آکر میرا بازو پکڑا اور بولی ڈرامے پورے ہوگئے ہوں تو گھر چلو ۔گھر آکر وہ بڑبڑاتی رہیں اور مجھے منحوس کہتی رہیں بقول ان کے میری منحوسیت کی وجہ ے اس کی بیٹیوں کے رشتے نہیں آتے۔ شام کو جمیل آیا تو پہلے ہی کسی سے لڑ کر آیا تھا اس پر ماں بہن کی شکایتوں نے جلتی پہ تیل کا کام کیا اس نے خوب جی بھر کے مجھے پیٹا اور پھر شراب پی کر سو گیا میںحرماں نصیب اپنے نصیب کو کوستی سسکتی رہی خدا جانے میرا کتنا امتحان باقی تھا ۔ساس اور نندیں جانے کیا کھسر پھسر کر رہی تھیں ، میری آنکھ لگ گئی ۔آدھی رات کو مجھے جھنجوڑا کہ مجھے چائے بنا کے دو ۔میں ا پنے زخم زخم جسم و روح کے ساتھ باورچی خانے میں گئی اور ماچس جلائی ایک ھماکہ ہوا اور مجھے آگ نے لپیٹ میں لے لیا میں بے ہوش ہو گئی۔
نجانے کتنے دن ہوش و حواس سے بیگانہ رہی اللہ بھلا کرے پڑوسیوں کا جنہوں نے ترس کھا کر سرکاری اسپتال پہنچایا جب کچھ ٹھیک ہوئی تو بدنما جسم اور بدصورتی میرا مقدر بن چکی تھی ایک آنکھ بھی اس حادثے نے چھین لی ۔جمیل اور اس کے گھر والے نجانے کہاں چلے گئے۔اب میں اس دنیا میں اکیلی ہوں اسپتال میں ایک بوڑھی اماں نے میرا خیال رکھا وہی مجھے اپنے ساتھ لے آئی ۔لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہوں مگر کوئی مجھے ذیادہ دیر نہیں رکھتا نفرت کی نگاہ سے دہکھتے ہیں ۔باجی میرا قصور کیا ہے؟؟ زینت کی آنکھ میں آنسو اور لب پہ سوال تھا ۔میں نے اپنے آنسو پونچھے اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا کیوں کہ اس کا جواب میرے پاس بھی نہیں تھا اور نہ ہمارے اس معاشرے کے پاس جو خود کو باعزت اور مہذب معاشرہ کہتا ہے۔
تحریر : عفت