ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اسے ’’سمجھدار‘‘ سمجھیں اور اس کی یہ صفت بیان بھی کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان خود اس صفت کو حاصل کرنے کی کوشش کم ہی کرتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سمجھداری حاصل نہیں کی جاتی بلکہ یہ انسان کو تربیت کی صورت میں اس کے والدین، اساتذہ، دوستوں اور معاشرے سے ملتی ہے۔ پاکستان میں سب سے سمجھدار طبقہ ہمارے سیاستدان ہیں۔ ان کی سمجھداری ثابت کرنے کی ضرورت نہیں، اس کےلیے یہ ہی ثبوت کافی ہے کہ ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے علاقے میں کسی ایک جماعت کیا بلکہ جو بھی امیدوار سیاست میں منتخب ہوتے آرہے ہیں ان کی اکثریت کرپٹ اور بدمعاش ہے، ان کے مقابلے میں اگر کوئی معزز اور تعلم یافتہ امیدوار آتا ہے تو ہم عوام پھر بھی ووٹ اسی بدمعاش مافیا کو دیتے ہیں… کیونکہ ہم ان کی ’’سمجھداری‘‘ کے گھائل ہی نہیں، قائل بھی ہوچکے ہیں۔
یہ تو انسان کی بات تھی کہ کونسی مخلوق ہم میں زیادہ سمجھدار ہے۔ اگر ہم بات کریں بے جان اشیاء کی تو ان میں سب سے زیادہ سمجھدار ہمارے ملک میں ’’آگ‘‘ ہے۔ ایک زمانہ تھا جب گھروں میں سمجھدار آگ سے ’’بہو‘‘ کے جلنے کی خبریں سننے کو ملتی تھیں۔ کبھی کسی ساس یا نند کے جلنے کی خبر کم ہی سنی ہوگی۔ جب عوام میں شعور آیا کہ آگ کی یہ سمجھداری صرف ’’بہو‘‘ پر ہی کیوں چلتی ہے تو رفتہ رفتہ یہ سلسلہ ختم ہوتا چلا گیا۔ زمانے کی ترقی کے ساتھ اس ’’سمجھدار آگ‘‘ نے بھی ترقی کی اور اب اس نے ملک کے سمجھدار طبقے یعنی سیاستدانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا ہے؛ اور اپنی سمجھداری کی خدمات سے ان کا تحفظ کرنے لگی ہے۔
بینکوں سے لیے گئے قرضوں اور انشورنس پالیسی کے کیس میں بھی اسی سمجھدار آگ کا سہارا لیا جاتا رہا۔ بلدیہ فیکٹری کراچی میں اسی آگ کی سمجھداری سے 258 افراد کی جان لی گئی۔ اب اس آگ کی سمجھداری کو سرکاری سطح پر بھی تسلیم کرلیا گیا ہے۔ پاکستان کی عدالت یا میڈیا کا رخ کسی کرپشن کے کیس کی طرف ہوتا ہے تو اس کیس کے ریکارڈ کو یہ سمجھدار آگ جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ایل ڈی اے پلازہ لاہور میں مبینہ طور پر موجود میٹرو بس سروس کے ریکارڈ کو پراسرار آگ نگل جاتی ہے۔ جب ڈاکٹر طاہرالقادری نے چنیوٹ میں شریف برادران کی رمضان شوگر ملز میں انڈین ’’را‘‘ کے تقریباً 200 ایجنٹوں کی موجودگی کا انکشاف کیا تو رمضان شوگر ملز کے ریکارڈ میں سمجھدار آگ نے اپنا کام دکھایا۔ کراچی میں بحریہ کمپلیکس، کے ای ایس سی، ایکسپورٹ پرموشن بیورو کی بلڈنگ میں اس آگ کی سمجھداری سے خدمات لی گئیں۔ ایف بی آر کی بلڈنگ میں تو کمال ہی ہوگیا کہ آگ تیسری اور چوتھی منزل پر لگی اور پانچویں اور چھٹی منزل پر رحم کرتے ہوئے چھلانگ لگا کر ساتویں منزل پر پہنچ گئی۔ فیصل ٹاؤن لاہور کے تھانے میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ریکارڈ کےلیے سمجھدار آگ کے جوہر دیکھنے میں آئے۔ اسلام آباد میں عوامی مرکز کی بلڈنگ سے ٹیکس کے ریکارڈ کو بھی اسی بے رحم سمجھدار آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اور اب 24 فروری 2018 کو نیو سندھ سیکرٹریٹ کراچی کی بلڈنگ میں موجود ریکارڈ بھی سمجھدار آگ کی نذر ہوگیا۔زیادہ تر ایسے واقعات اتوار کے دن یا ڈیوٹی ٹائم کے بعد انجام دیئے گئے؛ اور انکوائریاں اس رپورٹ کے ساتھ داخل دفتر ہوکر رہ گئیں کہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ بس بہت ہوا! اب اس سمجھدار آگ سے ریکارڈ جلنے یا جلانے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ریکارڈ کو صرف پیپرز اور فائلوں تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے، اور قومی سلامتی کے اداروں کو بھی اس سمجھدار آگ کو سمجھا دینا چاہیے کہ اے سمجھدار آگ! اب تیرا کھیل ختم ہوا، لوگ اب تیری اس سمجھداری کو سمجھ چکے ہیں۔
صادق مصطفوی