ایک بادشاہ کی عدالت میں کسی ملزم کو پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے مقدمہ سننے کے بعد اشارہ کیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ بادشاہ کے حکم پر پیادے اسے قتل گاہ کی طرف لے چلے تو اس نے بادشاہ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ کسی شخص کے لئے بڑی سے بڑی سزا یہی ہو سکتی ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے اور چونکہ اس شخص کو یہ سزا سنائی جا چکی تھی اس لئے اس کے دل سے یہ خوف دور ہو گیا تھا کہ بادشاہ ناراض ہو بھی گیا تو اب معافی کہاں ملنی ہے۔۔۔’’بادشاہ نے یہ دیکھا کہ قیدی کچھ کہہ رہا ہے تو اس نے اپنے وزیر سے پوچھا “یہ کیا کہہ رہا ہے؟۔۔۔بادشاہ کا وزیر بہت نیک دل تھا ۔۔۔اس نے سوچا اگر ٹھیک بات بتا دی جائے تو بادشاہ غصے سے دیوانہ ہو جائے گا اور ہو سکتا ہے قتل کرانے سے پہلے قیدی کو اور عذاب میں مبتلا کرے۔ اس نے جواب دیا:’’بادشاہ سلامت…! یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ پاک ان لوگوں کو پسند فرماتا ہے جو غصے کو ضبط کر لیتے ہیں اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں‘‘۔وزیر کی بات سن کے بادشاہ مسکرا دیا اور اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو آزاد کر دیا جائے۔۔۔بادشاہ کا ایک وزیر پہلے وزیر کے مخالف تھا اور بہت تنگ دل تھا، وہ خیر خواہی جتانے کے انداز میں بولا:’’بادشاہ سلامت..! یہ بات ہرگز مناسب نہیں ہے کہ کسی بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ اور زبان پہ لائیں اور سچ یہ ہے کہ قیدی حضور کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ غصہ ضبط کرنے اور بھلائی سے پیش آنے کی بات نہیں کر رہا تھا‘‘۔۔۔وزیر کی بات سن کر نیک دل بادشاہ نے کہا:’’اے وزیر..! تیرے اس سچ سے جس کی بنیاد محض بغض اور حسد پر ہے، تیرے بھائی کی غلط بیانی لاکھ درجہ بہتر ہے کیونکہ اس سے ایک بےبس انسان کی جان بچ گئی۔ یاد رکھ…! اس سچ سے جس سے کوئی بہت بڑا فساد پھیلتا ہو، ایسا جھوٹ بہتر ہے جس سے کوئی بُرائی دُور ہونے کی امید ہو‘‘۔روایت ہے کہ اس کے بعد بادشاہ نے قیدی کی سزا معاف کر دی جبکہ اپنے اس وزیر کو جو اپنے دل میں ساتھی وزیر کے لیے کینہ رکھتا تھا، کے لیے موت کا فرمان جاری کر دیا۔