تحریر: ثوبیہ خان
عا شر اور سلمہ کی پسند کی شادی ہو ئی تھی۔ شادی کے سال بعد ہی سے سلمہ کو اولاد کی خواہش تڑپا رہی تھی۔ عاشر البتہ اس معاملے میں کافی صابر واقع ہوا تھا کہتا تھا کہ اولاد اللہ کی دین ہوتی ہے اللہ جب چاہے گا ہمیں اپنی نعمت سے نواز دے گا۔جلد یا بہ دیر سے کیا فرق پڑتا ہے اللہ جو بھی دے نیک اور صالح دے۔ عا شر کے یہ الفاظ سن کر سلمہ کو کافی تشفیع ہو تی تھی۔ دن اور رات گزرتے گئے یہاں تک کہ تین برس گزر گئے۔ کہتے ہیں نہ کہ اللہ کہ ہاں دیر ہے اندھیر نہیں بس شادی کے تیسرے سال سلمہ بھی امید سے ہوگئی۔ایک طرف سلمہ کی امید بر آئی تو دوسری طرف باپ بننے کی خوشی عاشر کو پھولائے دے رہی تھی۔
ان کے گھر میں تو گویا خوشیوں نے پہرا دے دیا۔ وہ دونو ں اولاد کی خوشی کا سنتے ہی دیوانہ وار ات کی آمد کی تیاریاں کر نے لگے۔ کبھی اس کے لئے سامان کی لسٹیں بنتیں تو کبھی ناموں کی۔کبھی کمرے کی دیواروں کا رنگ سوچا جاتا تو کبھی کھلونوں کا ڈھیر لگادیا جا تا۔وہ گھنٹوں گھنٹوں آنے والی اولاد کے متعلق گفتگو کر تے رہتے۔ سوہانے سپنے سجاتے سجاتے انھوں نے تو یہ تک سوچ لیا کہ اسے کون سے اسکول میں داخل کروانا ہے اور کونسی ڈگری دلوانی ہے اللہ اللہ کر کے وہ دن بھی آ پہنچا جب ان کا ننھا مہمان دنیا میں آیا۔ بچے کی جنس سے متعلق نہ انہوں نے جاننے کی کوشش کی تھی نہ آخری وقت تک انھیں پتا تھا۔لیکن ڈاکٹر نے ان سے جس جنس کا ذکر کیا اس کے بارے میں نہ تو انھوں نے سوچا تھا نہ وہ سوچ سکتے تھے۔ بد قسمتی سے ان کا بچہ معاشرے کی اس اقلیت سے تعلق رکھتا تھا جو قابل عزت نہیں سمجھی جاتی ہے۔جسے معاشرے میں ‘بری’ نظروں سے دیکھا جا تا ہے۔ جنہیں انسان ہوتے ہوئے بھی انسانیت کی سند نہیں دی جاتی۔بدقسمتی سے ان کا بچہ ایک خواجہ سراء تھا۔
وہ بچہ لیے گھر تو آگئے پر جو خوشی انھیں بچے کی پیدائش سے پہلے تھی وہ ناپید ہوگئی بلکہ اب تو نیا مسئلہ پیدا ہوگیا کہ بچے کا کیا کیا جائے۔عاشر چاہتا تھا کہ بچہ خواجہ سرائوںکے حوالے کر دیا جائے عاشر باپ تو تھا لیکن معاشرے کی بے رحم رویے کو جانتا تھا٫جانتا تھا کہ اگر محض محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بچہ پال بھی لیتے ہیں تو معاشرہ انہیں طعنوں تشنوں کی وہ مار مارے گا کہ زندگی جہنم سے بھی بد تر ہوجائے گی پر سلمہ ماں تھی یہ کیسے برداشت کر سکتی تھی۔
اس کا جگر گوشہ٫ اس کا بچہ اس سے جدا ہو کر معاشرے کی اس اقلیت کا حصہ بن جائے جہاں دو و قت کی روٹی اور چھت کے لئے وہ جتن کر نے پڑتے ہیں جو انہیں زندگی اور موت کے درمیان لاکھڑا کر تے ہیں۔ اس عجیب درد بھری صورت حال میں یہ دونوں میاں بیوی نہ جانے اس بچے کی قسمت کا کیا فیصلہ کریں لیکن ایک بات تو طے ہے کہ وہ بچہ جہاں بھی رہے٫زندگی کی بدترین مشکلات اس کے حصے میں لکھ دی گئی ہیں۔اور اسکے بڑے حصے دار ہم’بے حس’ عوام ہیں٫ ہمارے بوسیدہ نظریات اور ہمارے رویے ہیں اور کیونکہ ہم بے حس ہیں اس لیے ہمیں احساس تک نہیں ہے کہ ہم نے کس بے دردی سے خواجہ سرائوں سے جینے کا حق چھین رکھا ہے۔
ایک انسان٫ایک خواجہ سراء جس کے دل میں عام انسانوں جیسے ہی جذبات ہوتے ہیں٫ جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے٫ جو متوقعہ طور پر بہترین دماغی صلاحیتوں کا مالک ہوسکتا ہے۔ جو معاشرے میں ایک پیداواری کردار ادا کر سکتا ہے لیکن ہم اسے محض اس کی جنس کی وجہ سے اپنے معاشرے سے الگ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ہم اسے اچھوت سمجھتے ہیں۔ہم اسے ایسے شخص کے طور پر جانتے ہیں جس پر ہنسا جا سکتا ہے جس کا مذاق اڑایا جا سکتا ہے ٫جو حقیر ہے٫کمتر ہے۔جس کا معاشرے پر کوئی حق نہیں۔یہاں تک کہ اس کا شمار آپ کے ملک کی مردم شماری میں بھی نہیں ہوتا۔
یہ صورت حال صدا ایسی ہی رہے گی یا اس میں سدھار پیدا ہو سکتا ہے پاکستان میں موجود لاکھوں خواجہ سراء ملک کی ترقی میں کبھی کوئی کردار اداکر پائیں گے یا نہیں یہ سب تو پتا نہیں البتہ یہ ضرور پتا ہے اگر معاشرے کو فرسودہ اور باسی نظریات سے پاک کر نا ہے تو ہر فردواحد کو معاشرے کی ترقی اور فلاح وبہبود میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان خواجہ سرائوں کو بھی ملک کی ترقی کہ دھارے میں شامل کر یں جنہیں صرف ہماری سوچ نے معزور کر رکھا ہے۔
تحریر: ثوبیہ خان