counter easy hit

مرادیں تو پوری ہو رہی ہیں نا؟

Judicial Commission

Judicial Commission

تحریر : عالیہ جمشید خاکوانی
مجھ سے لوگ کہتے ہیں جوڈیشنل کمیشن کے فیصلے پر اپنی رائے دیں۔ میں ناچیز بھلا کیا رائے دے سکتی ہوں جب کہ دوسال جنگ لڑنے والا اس پہ شکست تسلیم کر چکا ہے ۔سچ پوچھیں تو قانون کی آنکھیں نہیں ہوتیں ،صرف سننے والے کان ہوتے ہیں جو اچھی دلیل دیتا ہے اپنا کیس جیت لیتا ہے ۔قانون کے ہاتھ میں ترازو سہی مگر ترازو کا پلڑا اسی طرف جھکتا ہے جس طرف وزن زیادہ ہوتا ہے اور وزن یا دولت کا ہوتا ہے یا طاقت کا ۔۔۔جج دلیل دیکھتا ہے انصاف نہیں ،انصاف اللہ دیتا ہے جس کے ہاں نہ کوئی رشوت چلتی ہے نہ سفارش اس لیئے صبر کرنے والوں کو میٹھے پھل کی نوید دی جاتی ہے تاکہ وہ صبر کے ساتھ اپنے رب کے فیصلے کا انتظار کریں جس طرح مشرف نے صبر سے اللہ کے فیصلوں کا انتظار کیا ہے کہ آج اس کا کیا گیا ہر فیصلہ اور اس کی کہی گئی۔

ہر بات درست ثابت ہو رہی ہے وہ کھیل جو افتخار چودھری کو لانچ کر کے شروع کیا گیا تھا اب اس کی تکمیل کا وقت قریب آ گیا ہے یہ اور بات کہ زندگی وفا نہ کرے ۔۔۔میرا مطلب ہے بندوں کی سوچ کچھ اور ہوتی ہے تقدیر کچھ اور بنتی ہے ۔عمران خان نے بھی یہی سوچ کے قوم کو جگایا کہ میرے پیچھے یوتھ کھڑی ہے میں اس الیکشن کی خامیاں آزاد عدلیہ میں ثابت کرونگا ۔وہ بھول گیا یہ برٹش عدالت نہیں پاکستانی عدالتیں ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران کی وجہ سے قوم میں سیاسی شعور پیدا ہوا ورنہ سیاست دو پارٹیوں کے درمیان میوزک چیئر کا کھیل بن کے رہ گئی تھی۔

یوتھ جانو جانو کھیل رہی تھی اور ہمارے جیسے لوگ قسمت پر شاکر ہو کر غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہے تھے اپنا اپنا کام سب نے بانٹ رکھا تھا کوئی بھیک مانگ رہے تھے کوئی ڈاکہ مار رہے تھے کوئی ہاکی کو لات مار رہے تھے کوئی کرکٹ پہ جوا کھیل رہے تھے کنڈیکٹر اور لفٹ مین جیسے کردار ترقی کرکے انسانی سروں سے فٹ بال کھیل رہے تھے یعنی ہر کوئی مگن تھا یہ زرداری کا عہد زریں تھا لیکن اس کے پیچھے دماغ کسی اور شیطان کا کام کر رہا تھا،عنقریب وہ شیطان منظر عام پر نے والا ہے۔

اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس میں کس نے کیا پایا کیا کھویا؟ ۔میں سمجھتی ہوں اگر عمران خان کو کوئی خوش فہمی تھی تو اس کا علاج ہو گیا ،قوم بھی جاگ گئی کہ اس ملک میں اس وقت تک سسٹم ٹھیک نہیں ہو سکتا جب تک الیکشن ٹھیک نہیں ہونگے اور الیکشن اس وقت ٹھیک ہونگے جب لوگ اس سسٹم کے خوف سے آزاد ہونگے ۔اب آتے ہیں اصل بات کی طرف تحریک انصاف کے مرکزی رہنما حامد خان نے کہا ہے کہ دھاندلی کے معاملہ سے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کا کوئی تعلق نہ تھا میں نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ اس میں سابق چیف جسٹس کو ملوث نہ کیا جائے لیکن میری بات نہیں مانی گئی ۔عمران خان کو کسی نے مس گائیڈ کیا۔

انہوں نے کہا دھاندلی ہوئی تھی مگر ہم اس کو ثابت نہیں کر پائے ۔میری ناقص رائے کے مطابق یہاں یہ بات بھی دیکھنے والی ہے کہ ججوں یا کمیشن کے فیصلے عموماً کئی کئی سو صحفات پر مشتمل ہوتے ہیںجن کے ہر لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں قانون داں کسی بھی ایک نقطے کو لیکر کیس کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں اس لیئے قانونی کھیڈمیں جانے سے پہلے ہر پہلو پر غور کر لینا چاہیئے ۔اس سلسلے میں ڈاکٹر طاہر القادری نے بہت پتے کی باتیں کی تھیں اور وہی ہوا ،اب مسلہ یہ ہے کہ عمران خان وہ شخص ہے جو کتے کو قبر میں دفن ہوتے دیکھ چکا ہے اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی نے جو کہیں سے گزر رہا تھا بے روزگار پیٹ بھوکا لیکن دماغ شیطانی ،ہڈ حرامی من میں بسی ہوئی ۔اس نے دیکھا سڑک کنارے کتا مرا پڑا ہے (ایک شخص دیکھ رہا تھا)۔

اس نے جلدی سے زمین کھودی اور اس کو دبا دیا قبر پہ تازہ چھڑکائو کیا اوپر سبز کپڑا ڈالا چند پھول ڈالے اور مجاور بن کے بیٹھ گیا صبح ہوئی لوگوں نے پوچھا بابا یہ راتوں رات قبر کیسے بن گئی مجاور روتے ہوئے بولا یہ میرے مرشد ہیں ہم اکھٹے سفر پہ نکلے تھے یہ ویرانوں میں عبادت کرتے تھے رات اس ویران جگہ پر ان کا انتقال ہو گیا انکی وصیت کے مطابق میں نے اسی جگہ ان کی قبر بنا دی ۔بس جی لوگوں نے آئو دیکھا نہ تائو قبر پر پھول اور پیسے رکھنے شروع کر دیئے آس پاس کے دیہاتوں میں بڑھا چڑھا کر باتیں پہنچتی گئیں عورتیں ویسے ہی ان کاموں کی ماہر ہوتی ہیں ضعیف ال اعتقادی نے انہیں مہمیز کیا تو کئی آنکھوں دیکھی کرامتیں بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئیں۔

منتیں مرادیں بھی پوری ہونے لگیں سب اپنی اوقات میں مگن تھے کوئی بے چین تھا تو وہ شخص جس نے اپنی آنکھوں سے کتا دفن ہوتے دیکھا لیکن اس کی حیرانی کی حد نہ رہی جب اس کے گھر سے ہی مخالفت اٹھی وہ غصے سے چیختا کوئی پیر ویر نہیں ہے یہ کتا ہے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تو اسی وقت اس شخص کو پکڑتے نا بیوی بولتی۔” کیسے پکڑتا اندھیرا تھا اس کے ہاتھ میں بیلچا تھا آنکھوں مین شیطانی چمک میں نے سوچا کہیں مجھ پر حملہ ہی نہ کر دے ۔دوسرے دن میرے ذہن سے بات ہی نکل گئی میں نے سوچا ۔ہوگا کوئی پاگل جو مرے ہوئے کتے کے لیئے اتنی محنت کر رہا ہے مجھے کیا معلوم تھا یہ دھندا شروع کر دے گا وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

اس کی بیوی نے کہا اب کوئی نہیں مانے گا جن کو سچ لگے گا وہ بھی تیری نہیں سنیں گے کیونکہ اب سب کی روزی بندھ گئی ہے اور گھر آئے رزق کو لات کوئی نہیں مارے گا ۔کسی نے ہار پھول کی دکان کھول لی ہے کوئی تندور لگا کے بیٹھ گیا ہے سردائیاں گھوٹی جا رہی ہیں لنگر چلنے لگا ہے چڑھاوے چڑھ رہے ہیں ،اور یہ بھی تو دیکھ زینب کا بیٹا کب سے بیمار تھا بابا کے مزار پہ جا کے کیسے بھلا چنگا ہو گیا ۔” رشیدہ کی بیٹی ہر وقت روتی رہتی مجاور نے پانی دم کر کے دیا اب دیکھو چین سے سوئی رہتی ہے ۔” اری بے وقوف یہ پانی مین افیم کا گھسا لگا دیتے ہیں چین سے اسی لیئے سوتی ہے وہ کلس کر کہتا ۔” بس بس مرادیں تو سب کی پوری ہو رہی ہیں نا؟ تجھے کیا۔

عمران خان بھی اس سسٹم کو بدلنے کا تہیہ کر چکا تھا وہ دیکھ چکا ہے کہ اصل خرابی کدھر ہے لیکن اس ک زیرک ساتھی اپنی مرادوں کو پہنچنا چاہتے ہیں جو جتنے لالچی تھے یا عقلمند جلد داغ مفارقت دے گئے ۔لیکن لگتا نہیں کہ عمران ہار مانے وہ اس سسٹم کی کشتی کو بے پتوار کر چکا ہے رسی کٹ چکی ہے سسٹم ڈول رہا ہے ،نئی نسل اس کو اب چلنے نہیں دے گی ،اگلا الیکشن سہی سسٹم ٹوٹے گا ضرور انشا اللہ!۔

Aaliya

Aaliya

تحریر : عالیہ جمشید خاکوانی