امن آشاؤں کا نیا ڈول ڈالنے کے لیے میں کسی مشترک ہیرو کی تلاش میں تھا کہ ماہرہ خان ہاتھ لگ گئی جس کے سگریٹ کے دھویں کے ساتھ اس کے کپڑوں کی دھجیاں بھی فضا میں بکھری ہوئی ہیں۔
کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ جس ملک میں سوارہ، غگ اور ونی جیسی مکروہ رسمیں اور زینب ایسے شرمناک واقعات ہوتے ہوں وہاں ان معمولی باتوں پر لکھنا وقت کا ضیاع ہے۔ لیکن قلم ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
اپنے لافانی کرداروں کے باعث اپنی قامت سے زیادہ قد آور نظر آنے والی کافر اداکارہ ماہرہ اپنے خرام سے مداحوں کے دل کتر دیتی ہے۔ وہ بہترین اداکارہ، پرکشش ترین اداکارہ اور بااثر ایشیائی خاتون کے اعزازات حاصل کر چکی ہے۔ پرکشش ایشیائی ناریوں میں اس سال مزید اوپر آنے کا چانس تھا مگر سگریٹ کے دھویں نے منظر دھندلا دیا۔
ماہرہ عمر کی 33 بہاریں دیکھ چکی ہیں۔ ان کی شادی اور اس کے بعد علیحدگی بھی ہو چکی ہے۔ اب وہ ہیں اور شہرِ ذات کی تنہائیاں ہیں۔ بن پیے یا بن روئے تو کتھارسس نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس نے سگریٹ کو اپنا ہم سفر بنا لیا ہے۔ ماہرہ کے سلسلے میں مسئلہ صرف سگریٹ ہی نہیں ہے بلکہ ان پر لگے الزامات کی فہرست طویل ہے۔ طویل فردِ جرم میں ایک ایسی دفعہ بھی ہے جس کے لگنے سے حکومتیں ڈول جاتی ہیں اور یہ بتانے والا کوئی نہیں ہوتا کہ میرے ساتھ آخر ہوا کیا ہے اور آگے کیا ہو گا؟
پچھلے سال ماہرہ کی ملی قدروں کو سلگاتی پکچرز دیکھ کر لوگ بھڑک اٹھے تھے۔ سلگتے سینوں میں ٹھنڈ پڑ جاتی اگر ماڈل رجوع کر لیتی۔ لیکن اس نے صرف رول ماڈل بننے کا وعدے کیا۔ ابھی اس اسکینڈل کی دھمک تھمی نہیں تھی کہ ماہرہ کے ہاتھ میں سگریٹ دیکھ کر پھر زلزلہ آ گیا اور وہ پھر سے جھرمٹ اورجتھے کے درمیان جھولنے لگی۔ یہ انتہائیں شاید ماہرہ کو پسند ہیں۔ ادھر انتہائی سویٹ خرد اور فلک؛ ادھرانتہائی بولڈ سارہ اور آسیہ۔ اس کے ہاتھ میں جام ہوتا تو کوئی بات بھی تھی کہ مرمریں ہاتھوں اور لبوں کو نہ صرف بلوریں جام زیبا ہیں بلکہ شہرِ ذات کو کھوجنے میں معاون بھی ہیں۔
وقت کے ساتھ ماہرہ کی زندگی تہلکہ خیز ہوتی جا رہی ہے۔ کبھی آئٹم سانگز پرڈانس اور کبھی بولڈ پکچرز کی ویڈیوز تواتر سے وائرل ہونے لگی ہیں۔ لیکن جو سموگ سگریٹ کے دھویں سے پھیلی ہے وہ چھٹنے کا نام نہیں لیتی۔ اس کے مداح دو حصوں میں بٹ چکے ہیں۔
ماہرہ کے مخالف کہتے ہیں کہ نیم شبی، نیم لباسی، ہیجان خیزی، سگریٹ نوشی، دشمن دوستی، یہ سب بے غیرتی کی انتہائی شکلیں ہیں۔ ہماری بلی ہمیں ہی میاؤں کرنے لگی ہے۔ یہ مانا کہ وہ فلم ایکٹریس ہے لیکن پٹھان، مسلمان اور پاکستانی بھی تو ہے۔ ایک عورت ہو کر یوں ڈھٹائی سے کش لگانے پر اسے ڈوب مرنا چاہیے۔ اسے سرِعام اقدار کی دھجیاں اڑانے اور سگریٹ کو گلیمرائیز کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ماہرہ کے حامی کہتے ہیں کہ ماہرہ کوئی چیز نہیں بلکہ غیر معمولی چیز ہے۔ وہ اوڑھنی اوڑے یا اس کی اوڑھنی اڑی اڑی جائے، رِپڈ جینز پہنے یا جالی دار میکسی، لوگوں کو آخرمسئلہ کیا ہے؟ سگریٹ نوشی کون نہیں کرتا۔۔۔ دیہات میں خواتین حقہ، چلم، بیڑی، نسوار اور بھنگ تک استعمال کرتی ہیں۔ ایلیٹ کلاس سگار، شیشہ اور شراب کی رسیا ہے۔ یہاں لوگ خون تک پی جاتے ہیں اور کوئی نہیں پوچھتا۔ جہاں تک لباس کی بات ہے تو ماہرہ کوئی رابعہ یا راہبہ تو ہے نہیں جس سے تقدس اور حرمت کا تقاضا کیا جائے۔ وہ ایک ورسٹائل ایکٹریس اور بے مثال فیشن آئیکون ہے۔ جس نے مختصر عرصے میں وی جے سے بالی ووڈ کے شاہی رئیس کو جا لیا ہو؛ جس نے خرد، منیزے اورآسیہ کے کرداروں سے ایک دنیا کو اپنا اسیر بنا لیا ہو، جس کےکریڈٹ پر 9 ایوارڈز ہوں، اسے گامے اور ماجھے بتائیں گے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے؟
ماہرہ سے معذرت کہ ہماری تمام تر ہمدردیاں اس مسئلہ میں اس کے مخالفوں کے ساتھ ہیں کیوں کہ ان کا اس مہان اداکارہ سے جنم جنم کا رشتہ قائم ہو چکا ہے۔ یہ اس سے پیار کی اس انتہاء پر ہیں کہ اس سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹے تو ٹوٹ جائیں گے۔ یہ خرد اور فلک کے اسیر ہو چکے ہیں۔ کاش! میرے بھولے بھالے اور ٹوٹ کر محبت کرنے والے مہربان اداکار اور اداکاری کا مفہوم سمجھ سکتے۔ تفصیلی بات پھر کبھی ہو گی۔ ابھی میں ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں۔ ملکہ ترنم نورجہاں ایک مقدمہ میں پیشی پراصالتاً حاضر نہیں ہونا چاہتی تھیں۔ ان کے وکیل ایس ایم ظفر نے عدالت سے درخواست کی کہ میری موکلہ ایک باوقار اور باپردہ خاتون ہیں۔ اداکاری اور گلوکاری تو ان کا پیشہ ہے۔ عدالت نے دلیل کے وزن کو محسوس کرتے ہوئے نورجہاں کو اصالتاً حاضری سے استثنا دے دیا تھا۔