جتھے وگدی دے نے رادی تے چناں بیلیا
اس بیلے وچ ساڈا وی اے گھراں بیلیا
ایک پچھلے کالم میں ہم نے بھی کچھ ایسا ہی کہنا چاہاتھا ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم جس بیلے میں رہتے ہیں وہاں ’’راوی تے چناں‘‘ کے بجائے غربت اور دولت کے دو دریا ساتھ ساتھ بہتے ہیں بلکہ اگر ہم پوری تفصیلات کے ساتھ بات کرنا چاہیں تو اس کے لیے ہمیں ایک کہانی کا سہارا لینا پڑے گا۔ پرانی کہانی ہے کہ ایک شخص نے خواب میںدیکھا کہ تین کنوئیں ساتھ ساتھ ہیں جن میں سے صرف درمیان والا خالی ہے جب کہ دائیں بائیں کے دونوں کنوئیں لبالب بھرے ہوئے ہیں۔ ایک بھرا ہوا کنواں پانی اچھالتا ہے جو آخری بھرے ہوئے کنوئیں میں جاتا ہے، وہ تو پہلے سے بھرا ہوا ہے اس لیے وہ بھی پانی اچھالتا ہے تو سیدھا پہلے بھرے ہوئے کنوئیں میں جا گرتا ہے جب کہ درمیان والا خالی کنواں منہ کھولے رہ جاتا ہے۔
دوسری بات تصوراغلط ہو گئی ’’دوسرا ‘‘ تو ایک کو جانتا ہے لیکن ایک دوسرے کو جانتا تک نہیں ہے حالانکہ دوسرے کی طرف سے کافی کوشیش بھی ہوئی ہیں لیکن
تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل امجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
اور پشتو میں کہا جاتا ہے کہ جن کی قسمت میں ملنا نہیں لکھا ہوتا ہے، وہ ایک ہی گلی میں آگے پیچھے ہو جاتے ہیں ،کئی بار دیکھا ہے اور پھر دیکھنے کی بالکل بھی ہوس نہیں ہے کہ یہ بھرا ہوا کنواں اچھال مارتا ہے، ہم بھی منہ کھولتے ہیں لیکن پانی سر کے اوپر سے گزر کر نہ جانے کس کنوئیں میں پڑجاتا ہے؟پچھلے دنوں اس بھر پور کنوئیں کا بہت سارا پانی ہمارے سر کے اوپر سے گزر کر ایک پاس والے کنوئیں میں لینڈ کر گیا تو آخر بندہ بشر ہے، دکھ تو ہوتا ہے، اس طرح کے واقعات کا ہمیں بھی ہوا ، سوچا کہ جا کر کہہ ہی ڈالیں۔
دل توڑنے والے ذرا دیکھ کے چل
ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں
خلاف عادت ڈاکٹر عمران خٹک کو سیٹرھی بنانے کا خیال ہے جو ان کے داماد اور ان ہی کی خالی کی ہوئی نشست پر کامیاب ہو کر ہمارے ایم اپن اے بنے ہیں۔ ڈاکٹر عمران خٹک بھی اگر چہ بھرے ہوئے کنوؤں میں آتے ہیں لیکن کبھی چوک میں ان سے تھوڑا بہت پانی پیاسوں کو بھی مل جاتا ہے، مطلب یہ کہ کنواں ہونے کے باوجود آدمی بھی ہیں ان سے کہا تو بڑی خندہ پیشانی سے پیش آئے اور وعدہ کیا کہ میں کسی دن وقت لے کر آپ کو بڑے کنوئیں سے ملا دوں گا۔ ملنا ہمارا کوئی شوق نہیں ہے لیکن اس پر تھوڑی سی حیرانی ہے، پانی آتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اب تو ہمارے پاس بھی پہنچ جائے گا لیکن دوچار قدم کے فاصلے پر پہنچ کر یا تو زمین میں جذب ہو جاتاہے یا شاید بخارات بن کر اڑ جاتا ہے اور یاکوئی اور یا’’پانی چور ‘‘ چرا لیتا ہے۔ سٹرک کے ساتھ ایسا ہوا، گیس کے ساتھ ایسا ہوا ، نالیاں پختہ کرنے کے ساتھ ایسا ہوا، اب تو یہ خطرہ لاحق ہے کہ کہیں ہمارے ساتھ بھی ایسا نہ ہو جائے کہ یا توکہیں زمین کے اندر جذب ہوجائیں یا ہوا میں اڑ جائیں اور یا کوئی چرا کر نیفے میں اڑس لے ۔ اس لیے خفط ما تقدم کے طور پر ڈاکٹر عمران خٹک کا سہارا لینا چاہا لیکن ہائے رے ہماری کھوٹی قسمت کہ
ڈوبنے جائیں تو دریاملے یاباپ مجھے
ڈاکٹر صاحب بھی نہ جانے کہاں کھوگئے، فون کھڑکائے سندیسے بھجوائے لیکن واں ایک خاموشی ترے سب کے جواب میں ، اب ہمیں اپنی فکر نہیں ہے، وہ تو ہم اپنی بد قسمتی کے ساتھ ویسے ہی عادی ہو چکے ہیں جیسے کوئی شوہر اپنی بدصورت بیوی کے ساتھ صابرین شاکرین میں سے ہوجاتا ہے ۔ ایک پشتو کہاوت کہ اگر ’’گور ‘‘ سخت بھی ہے تو بچارے ’’مردے‘‘ کی تو مجبوری ہوتی ہے۔بلکہ ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں خدا نخواستہ ڈاکٹر صاحب کہیں بیمار شمار نہ ہوگئے ہوں، ہمارے نہ سہی دوسروں کے کام تو آتے رہتے ہیں نا۔جا تو سکتے نہیں کیونکہ جائیں بھی توکہاں جائیں، ٹیلفون کا ذریعہ ناکام ہوگیا، سندیسہ لانے لیجانے والابھی کوئی دستیاب نہیں ہے، اس لیے وہی بات کہ ملا کی دوڑ مسجد تک ۔ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر ۔ لے دے کر یہی ایک کالم کا ذریعہ رہ گیا ہے تو چلو یہ بھی آزما کر دیکھتے ہیں ۔
سنا ہے ان کو ہے رغبت غریب حالوں سے
تو چلو خود کو بھی برباد کر کے دیکھتے ہیں
ڈاکٹر صاحب جہاں کہیں بھی ہوں ، اپنی خیریت سے مطلع کریں، بیرنگ چٹھی ہی کے ذریعے سہی ۔