کراچی: نقیب اللہ محسود قتل کیس میں گرفتار سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی پیشہ ورانہ رقابت کی وجہ سے کرائی گئی جبکہ دھمکی آمیز خط سے متعلق وہ وفاق، صوبائی حکومت اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کو آگاہ کرچکے ہیں۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں راؤ انوار نے کہا کہ ‘میرے خلاف نقیب اللہ قتل کیس میں بھی شواہد موجود نہیں ہیں، میں نے نقیب اللہ کو پکڑوایا اور نہ مارا، یہ بات ریکارڈ موجود ہے’۔سابق ایس ایس پی نے امید ظاہر کی کہ ‘نقیب اللہ قتل کیس میں وہ بے قصور ثابت ہوں گے’۔راؤ انوار نے کہا کہ ‘جے آئی ٹی میں میرا فون نمبر بھی غلط ڈالا گیا ہے، وہ فون نمبر ڈالا گیا، جو میرے استعمال میں ہی نہیں’۔انہوں نے کہا کہ ‘میں 21 مارچ کو سپریم کورٹ اسلام آباد میں تھا، جبکہ جے آئی ٹی میں جو فون نمبر ڈالا گیا، اس کی لوکیشن کراچی تھی’۔سابق ایس ایس پی نے کہا کہ ‘مجھ پر 2 خود کش حملے ہو چکے ہیں اور میرے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کرنے والے شخص کو گرفتار کیا گیا’۔راؤ انوار نے ایک مرتبہ پھر یہ بات دہرائی کہ انہیں غلط مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔اس سے قبل آج کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں نقیب قتل کیس میں گرفتار سابق ایس ایس ملیر راؤ انوار کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔تاہم سماعت کے دوران نقیب اللہ کے والد کے وکلاء پیش نہ ہوئے۔ جس پر انسداد دہشتگردی عدالت نے مقتول کے وکلا کو دلائل کے لیے آخری مہلت دیتے ہوئے سماعت 4 جولائی تک کے لیے ملتوی کردی۔رواں برس 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔بعدازاں 20 مارچ کو راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، جہاں چیف جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر عدالت عظمیٰ کے احاطے سے راؤ انوار کو گرفتار کرکے کراچی پہنچا دیا گیا تھا، جہاں انسداد دہشت گردی عدالت میں ان کے خلاف نقیب قتل کیس کی سماعت جاری ہے۔