تحریر: مسز جمشید خاکوانی
قانون کوئی بھی ہو اس کا اصل مقصد معاشرے میں عدل و انصاف کو پروان چڑھانا ہے حضور صلی اللہ وسلم کی طرز فکر ہمیں یہ رہنمائی فراہم کرتی ہے کہ معاشرے میں سماجی انصاف ازحد ضروری ہے اب چاہے برٹش لاء ہو امریکی یا کنیڈین قانون ،متحدہ عرب امارات کا لاء ہو یا پاکستانی قانون ہو جس نظام کے تحت بھی معاشرے میں لوگوں کو فوری انصاف اور آسانیاں میسر ہوںکسی کی حق تلفی نہیں ہو رہی بنیادی حقوق کا خیال رکھا جا رہا ہے خواتین ،بچوں اور کمزور لوگوں پر ظلم کے راسطے مسدود کر دیے گئے ہیں
لوگوں کو تحفظ و سلامتی کا احساس اور حق میسر ہے ،باعزت روزگار حاصل ہے تو در حقیقت یہ نبی کریم کی تعلیمات کا ہی عکس ہے اس میں عورت مرد کی کوئی تخصیص نہیں ہے بلکہ عورتوں بچوں اور کمزور لوگوں کے حقوق پر زیادہ زور دیا گیا ہے حضرت آدم اور حضرت حوا علیہ سلام سے جب اللہ کی نافرمانی ہوئی تو سزا دونوں کو ہی ملی تھی صرف حضرت حوا کو بہکانے کی وجہ سے نہیں ملی تھی ۔عورت کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قانون پر جو بحث جاری ہے اسے خوامخواہ طول دیا جا رہا ہے اصل مسلہ عورت کو مرد کے تشدد سے بچانا ہے ،ناانصافی سے بچانا ہے
اس مسلے کی جڑ کو ختم کرنا ہے جو تشدد کی وجہ بنتا ہے بعض مرد صرف اپنی مردانگی ثابت کرنے کے لیے بھی عورت پر تشدد کرتے ہیں خصوصاً دیہی علاقوں میں یہ بیماری عام ہے جہاں بات بات پر عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسے ایک روٹین کی کاروائی تصور کیا جاتا ہے ہمارے علاقے میں ایک نو بیاہتا جوڑے میں معمولی بات پر کھٹ پٹ ہو گئی تو اس دیہاتی نوجوان نے بیوی کو ڈرانے کے لیے اس کے پائوں پر گولی چلا دی جو اس کی ٹانگ پہ لگ گئی ہاسپٹل لے جانا پڑا تو پولیس کیس بن گیا غریب آدمی کو ہزاروں روپے دے کر ضمانت کرانا پڑی اور بیوی کی منتیں ترلے الگ کرنا پڑے تو اگر قانون نہ موجود ہو تو معاشرہ تو جنگل بن جائے اب اس میں مولوی حضرات کا یہ کہنا کہ عورت پر ہلکا تشدد جائز ہے جس میں اس کی ہڈی نہ ٹوٹے ظاہر ہے اس کی تشریح بھی انہوں نے کی ہو گی کہ کن حالات میں ہلکا تشدد جائز ہے جب عورت کو سب کچھ میسر ہو روٹی ،کپڑا ،گھر کا سکون اور تب بھی وہ مرد کی عزت و حیا کو دائو پر لگائے تب بھی مرد کو یہ حق نہیں کہ وہ اسے مارے پیٹے یا قتل کر دے ہاں وہ باوجود سمجھانے کے نہ سمجھے تو اسے خود سے الگ کر دے کیونکہ اپنی زندگی جینے کا حق ہر انسان کو حاصل ہے
اسی طرح حکومت وقت کو بھی یہ دیکھنا چاہیے کیا اس کے عہد میں رعایا کو باعزت روزگار اور لوازمات زندگی میسر ہیں ؟ورنہ محض ایسے قوانین بنا دینا مذاق سے کم نہیں اب ایک مرد جس کے پاس روزگار نہ ہو وہ اپنی بیوی بچوں کی ضروریات پوری نہ کر سکتا ہو ایسے میں وہ اپنا غصہ اور جھنجلاہٹ بیوی پر ہی نکالے گا یا پھر خودکشی کرے گا ابھی کل ہی وہاڑی کے ایک نوجوان کا میسج مجھے ملا ہے اس نے لکھا ہوا تھا کہ ہم ماسٹر کر کے بھی معمولی نوکریوں کے لیے دھکے کھا رہے ہیں ایسے میں ہمارے پاس خودکشی یا جرم کے علاوہ کون سا راستہ بچتا ہے؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا تم سے پچھلی قومیں اس لیے تباہ کر دی گئیں کہ ان میں سے کوئی بااثر آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور کوئی عام آدمی جرم کرتا تو اس سے سختی سے نمٹا جاتا عدل و انصاف سے ہی معاشرے میں امن و سکون کی ضمانت دی جا سکتی ہے اور استحصالی عناصر کا راستہ روکا جا سکتا ہے
جہاں سماجی انصاف میسر نہ ہو وہاں جرائم ، بد عنوانی،لوٹ کھسوٹ اور ظلم و حق تلفی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو بالاآخر معاشرے کی تباہی اور بربادی پر متنج ہوتا ہے تباہی کی صورت بیرونی حملہ آوروں کی جارحیت بھی ہو سکتی ہے خانہ جنگی کا عذاب بھی مسلط ہو سکتا ہے یا کوئی ناگہانی آفت بھی ٹوٹ سکتی ہے ملک میں پھیلی بے چینی اور انارکی اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت وقت لوگوں کو انکے جائز حقوق دینے میں ناکام ہو چکی ہے ایسے میں کوئی بھی قانون اس وقت تک موثر نہیں ہو سکتا جب تک اس کے پیچھے چھپے عوامل کو نہ سدھارا جائے عورت پر تشدد کسی بھی صورت جائز نہیں کہ عورت ایک پھول کی مانند ہوتی ہے اس کو تشدد سے مسل دیا جائے تو اس میں وہ خوشبو وہ تازگی باقی نہیں رہتی جو ایک تروتازہ معاشرے کی بقا کے لیے ضروری ہے اس سے پہلے وراثت کا قانون بھی موجود ہے لیکن سینکڑوں نہیں لاکھوں مثالیں موجود ہیں جب عورت کو حق وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے اسی طرح نکاح نامے میں عورت کو طلاق کا حق تضویض کیا گیا ہے
لیکن یہ خانہ اکثر خالی ہی رہتا ہے لوگ اسے پڑھ کے ہی بدک جاتے ہیں کچھ اسے بد شگونی تصور کرتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں عورت جیسی ناقص العقل کو کو یہ حق دے دیا جائے تو گھر ایک دن بھی نہ بسے ہماری ایک جاننے والی خاتوں اس قانون سے مستفیض ہوئی تھیں ان کے سسر کچھ اچھی نیچر کے تھے انہوں نے کہا کہ یہ خانہ فل ہونا چاہیے لیکن شومئی قسمت وہ تمام عمر ساس کے طعنوں کا نشانہ بنی رہیں کہ تم نے تو دنیا سے نرالا کام کیا تھا وہ بے چاری آج بھی سر جھکائے بس رہی ہیں ،تو ثابت ہوا بسنا اجڑنا اپنی نیت پر منحصر ہوتا ہے جنھوں نے چھوڑ کے جانا ہو وہ ہاتھ پکڑنے سے نہیں رکتے نہ ہی قانون کسی میاں بیوی کا گھر بسا سکتا ہے جو کام قانون نافذ کرنے والوں کے بس میں ہیں وہ تو کرتے نہیں بس اپنی لوٹ کھسوٹ میں لگے ہیں اور لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے نت نئی بحثیں چھیڑ دیتے ہیں !
تحریر: مسز جمشید خاکوانی