counter easy hit

غیرت صرف مرد تک ؟

Allah

Allah

تحریر : نادیہ خان بلوچ
ابن آدم ہو کہ بنت حوا خدا نے دونوں کو ایک ہی جنس سے پیدا کیا. دونوں کو برابر کے حقوق دیے. دونوں کو ایک جیسا زندگی گزارنے کا حق ہے. نہ مرد کو عورت پر فوقیت ہے نہ عورت کو مرد پر برتری. مگر ازل سے ابن آدم نے ہمیشہ خود کو عورت سے اوپر سمجھا. یوں کہ جیسے وہ عورت کا خدا ہو اور عورت اسکی غلام. عورت کا جینا مرنا رہنا اوڑھنا بچھانا سب اس پہ حکومت کرنے والے مرد کی مرضی سے. چاہے وہ زمانہ جاہلیت ہو یا پھر موجودہ دور. عورت پر ہمیشہ سے ظلم ہوتا آرہا ہے. اسلام نے عورت کو آزادی دی. اسکا مقام دیا مگر اپنے فائدے کی سنتیں،حادیثیں اور اللہ کے احکام یاد رکھنے والے ابن آدم نے صرف وہی باتیں یاد رکھیں جس سے عورت کو اپنا محتاج کر سکے. ہر دور میں عورت کو جینے کے حقوق دلانے کیلئے بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے. قانون بھی بنائے گئے مگر ہائے افسوس اس پر عملدرآمد کسی بھی دور میں نہ ہوسکا. گھریلو تشدد،تعلیم پہ پابندی،غیرت کے نام پر قتل،رسم و رواج کے نام پر قید،وراثتی جائیداد سے محرومی اب بھی ہمارے معاشرے میں کچھ علاقوں میں اس سب کو عورت کاحق سمجھا جاتا ہے. جس پہ عملدرآمد ثواب سمجھ کے کیا جاتا ہے. اسکی خلاف ورزی کرنے کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا.

ہمارے ملک کی پولیس،ملک کے ایوان،عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے والے این جی اوز سب بے بس نظر آتے ہیں. آئے روز کسی نہ کسی جگہ مظلوم عورت پر تشدد کیا جارہا ہے. کہیں مرد حوس کا نشانہ بنا رہا ہے تو کہیں وہیں مرد غیرت کے نام پر عورت کا قتل کررہا ہے. کچھ ایسا ہی ہوا آج سے قریبا ڈیڑھ سال پہلے 2014ء میں اگست کے مہینے میں. یہ گرمیوں کا دن تھا. مظفرگڑھ کی تحصیل خان گڑھ کے نواحی علاقے موضع وڈے والا کے ایک گھر میں. جب گڈی نامی خاتون ناشتہ بنانے کیلئے اپنے گھر کے صحن میں بنے تندور میں آگ جلا رہی تھی. عین اسی وقت ظفر نامی شخص جو رشتے میں گڈی کا ماموں تھا ہاتھ میں پستول اٹھائے گھر میں داخل ہوا.ڈراتے دھمکاتے ہوئے گھر میں موجود باقی تمام افراد کو ایک طرف کیا،گڈی کا نشانہ لیا اور بنا ڈرے سر میں گولی مار دی. مقتولہ نے چند منٹ تڑپنے کے بعد جائے وقوعہ پر ہی اپنی آخری سانسیں توڑ دیں. گولی اسکے سر میں کچھ ایسے لگی کہ اس کی ایک آنکھ باہر نکل آئی. لاش کو ایسی حالت میں دیکھ کر خوف کے مارے کوئی اسکے پاس بھی نہ آیا. پولیس کے آنے تک مقتولہ کی لاش وہیں تندور کے پاس پڑی رہی. مقتولہ کے معصوم 4 بچے جن میں 3 بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے لاش کے پاس بیٹھے روتے بلکتے رہے کسی کو ترس نہ آیا. مقتولہ کے بڑے بیٹے کی عمر تقریبا 13 سال ہے.

Honor killing

Honor killing

جبکہ چھوٹی بیٹی صرف 2 سال کی. قاتل ظفر موقع سے فرار ہوگیا. جسکو بھاگنے میں گھر میں موجود باقی رشتہ داروں نے مدد کی. یہ کوئی گھریلو جھگڑے کی بنا پر قتل نہیں ہوا. یہ غیرت کے نام پر قتل تھا. بقول قاتل ظفر کے اسکی بھانجی یعنی کہ مقتولہ گڈی کا چال چلن ٹھیک نہیں تھا. لہذا اہل بستی کے غیرت مندوں نے اسے ایک پندرہ سالہ صفدر نامی لڑکے کے ساتھ کاری قرار دے کر قتل کردیا. جس میں مقتولہ کے شوہر مظہر کا بھی ہاتھ ہے. قاتل ظفر اس علاقے کا ایک جانا پہچانا گنڈہ ہے. جو چوری چکاری لوٹ مار عورتوں سے بدتمیزی جیسے کئی کیسسز میں جیل جا چکا ہے. پولیس قاتل کو ڈھونڈتی رہی. مگر وہ بلوچستان میں جا چھپا. ادھر پیچھے اہل علاقہ نے قاتل ظفرکو اس معاملے سے بچانے کی ساری تیاریاں مکمل کرلیں. قاتل ظفر سے مقتولہ کے شوہر مظہر نے رقم لیکر یہ بیان دینے کا وعدہ کرلیا کہ یہ قتل نہیں بلکہ پستول صاف کرتے ہوئے گولی چل گئی. کچھ عرصہ بعد جب قاتل واپس لوٹا تو خان گڑھ کی پولیس کے ہتھے چڑھ گیا مقتولہ کی بیوہ والدہ نے پانی کی طرح پیسہ بہایا تاکہ اپنے سگے بھائی اپنی بیٹی کے قاتل کو سزا دلوا سکے. عدالتوں کے چکر کاٹتی رہی انصاف مانگتی رہی. چشم دید گواہوں نے بھی قاتل ظفر سے پیسے لیکر بیان دینے سے انکار کردیا. مقتولہ کی والدہ کا ساتھ دینے کا بہانہ کرکے احاطہ عدالت میں اپنے بیان سے مکر گئے. مقتولہ کے شوہر مظہر نے چند پیسوں اور دوسری شادی کی لالچ میں جھوٹا بیان دے کر ملزم کو رہا کروا لیا. ملزم کی رہائی ٹھیک انہی دنوں ہوئی جس وقت حقوق نسواں بل کے پاس ہونے کے بعد لوگوں میں لفظی جنگ جاری تھی.

اور غیرت کے نام پر قتل پہ بنائی جانے والی فلم نے دنیا کا سب سے بڑا آسکر ایوراڈ جیتا. مقتولہ کی والدہ کو پورا یقین تھا کہ جس طرح خواتین کے حقوق پہ آواز اٹھائی جارہی ہے. قانون بنائے جارہے ہیں شاید میری بیٹی کو بھی انصاف مل جائے شاید اس قاتل کو سزا پاتا دیکھ کر رسم و رواج میں جکڑے لوگ خائف ہوجائیں آئندہ کیلئے ایسے کاموں سے توبہ کر لیں. مگر وہ غلط تھی یہاں انصاف کہاں ملتا ہے. آئے روز گڈی جیسی کئی خواتین غیرت کے نام پر مار دی جاتی ہیں. کیا غیرت صرف مرد کے اندر ہی ہے؟

Society

Society

اگر کوئی عورت غیرت کے نام پر ایک قتل کردے تو ہمارے ملک کے سبھی مرد اسے بدکار ثابت کرنے کیلئے سڑکوں پر نکل آئیں گے.اور اگر کوئی اس مردوں کے معاشرے میں عورت کی پاسداری کی بات کر بھی دے تو ہمارے ملک کے نام و نہاد مردوں کو شریعت یاد آجاتی ہے. مرد کا رتبہ یاد آجاتا ہے. کہ وہ تو مجازی خدا ہے. اور تمام پیغمبر بھی مرد آئے ہیں. مرد کے خلاف قانون بنے گا؟یہ تو اسلام کے خلاف ہے. مگر یہ نہیں دیکھیں گے کہ عورت پر جو اسلام کے خلاف ظلم ہورہے ہیں ان کا مرتکب بھی تو یہی مرد ہے. اگر عورت کا قتل غیرت کے نام پر جائز ہے تو میرا خیال ہے مرد سے کہیں زیادہ حساس عورتیں ہوتی ہیں.

وہ بھی غیرت کے نام پر قتل کرسکتی ہیں. کیونکہ عورتوں سے کہیں زیادہ مرد اس لائق ہیں کہ انکا قتل کیا جائے. اسلام اور قانون سب کیلئے برابر ہیں اسلام میں کہیں نہیں کہ تم اپنی غیرت ثابت کرنے کیلئے عورتوں کا قتل کر دو. جتنا عورتوں پر ظلم بڑھتا جارہا ہے اس قدر قانون بنائے جارہے ہیں اور اتنی تیزی سے ہی ایسے قوانین کو کوڑا دان میں ڈالا جارہا ہے. میں امید کرتی ہوں شاید کسی کو ہوش آجائے ایسے غیرت مندوں کو بھی کوئی پھانسی کے تختے پر لٹکائے جو خود تو عیاشی کرکے سرعام فخر سے کہتے ہیں میں نے یہ کیا مگر وہیں دوسری جانب اپنے آپ کو مرد ثابت کرنے کیلئے عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کردیتے ہیں.کسی خاندان کی عزت،غیرت شرافت کا اندازہ اس گھر کے مردوں کو دیکھ کر لگایا جاتا ہے نہ کہ عورتوں کو. اس لیے غیرت کے نام پر قتل کرنے والے خود یہ ضرور سوچ لیں کہ وہ خود کیا ہیں. ورنہ غیرت تو عورت کے اندر بھی ہے.

Nadia Baloch

Nadia Baloch

تحریر: نادیہ خان بلوچ
Nadiabaloch372@yahoo.com