تحریر: مشی ملک
عورت کی تکریم کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہمارے نبی کی بیٹی حضرت فاطمہ جب حضور اکرم سے ملنے تشریف لاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی چادر بچھاتے اور کھڑے ہو کر اپنی بیٹی کی عزت و تکریم میں اضافہ فرماتے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فعل سنت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک واضح پیغام بھی ہے کہ عورت قابلِ عزت ہے۔بیٹی ہے تو باپ کی عزت، بیوی ہے تو شوہر کی غیرت،بہن ہے تو حرفِ دعا،ماں ہے تو سراپا دعا، جنت کا رستہ۔قبل از اسلام عورت کی کوئی عزت و تکریم نہ تھی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس معاشرے میں عورت کو عزت سے نوازجو معاشرہ ذلت کی اتھا گہرائیوں میں گر چکا تھا۔جس معاشرے میں عورت کی خریدو فروخت کی جاتی تھی ۔عورت کا پیدا ہونا ہی گناہ تصور کیا جاتا تھابیٹی کے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا۔مگر سلام اس نبی ۖپر جس نے عورت کو رتبہ دیا وہ مقام دیا جو کسی دین نے کسی مذہب نے نہ دیا۔
عورت کو جائیداد میں وارث مقرر کیا ،عورتوں کے حقوق متعین کیے۔جس معاشرے میں عورت کو ایک غلام ایک باندی کی حیثیت دی جاتی ۔اس بے حس معاشرے میں عورت کو عزت کا مقام دیا۔نکاح مقرر کیا عورتوں پر تشدد سے روکا گیا ۔بیٹی کی پیدائیش پر شرمندگی کے بجائے رحمت کے لقب سے نوازا گیا۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا عورتوں پر ظلم نہ کرو عورتوں کی حقوق بتائے گئے عورت کو شرمندگی کے بجائے پاکیزگی سے تشبیہ دی گئی۔عورت پر پردہ واجب کیا گیا۔قبل از اسلام عورت کی کوئی ازدواجی حیثیت نہ تھی ۔اگر باپ مر جاتا تو اسکی بیوہ اسکے سوتیلے بیٹوں کی جائیداد سمجھی جاتی۔عورت پر تشدد روا رکھا جاتا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مطلقہ عورت سے نکاح کیا ۔اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں اگر خاوند مر جاتا تو اس کی بیوی کو دوسرے نکاح کی اجازت نہیں تھی۔اور اسے منحوس سمجھا جاتا تھا۔
ہندؤں میں خاوند کے مر جانے کی صورت میں عورت کو بھی خاوند کے ساتھ جلا دیا جاتا۔مگر یہ دینِ اسلام ہی ہے جس نے عورت کی عزت میں چار چاند لگائے۔عورت کو جائیداد سے حصہ دیا۔نکاح اپنی مرضی سے کرنے کا حق دیا، اور تشیح نکاح کا حق دیا۔عورت کا مہر مقرر کیا،عورت کو گھر کی ملکہ کہا۔عورت کے قدموں میں جنت رکھ دی ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاجنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ۔عورت کو وہ مقام دیا جس کی وہ حقدار تھی۔چودہ سو سال قبل اسلام نے جو مقام عورت کو دیا آج کا معاشرہ اس سے بہت دور ہے۔آج اگر ایک بیٹی اپنی پسند کی شادی کرتی ہے تو اسے کھلے عام قتل کر دیا جاتا ہے۔آج اگر ایک عورت اپنی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر بغاوت کرتی ہے تو یہ نام نہاد غیرت مند لوگ کبھی زہر دے کر تو کبھی کرنٹ لگوا کر اسے مار دیتے ہیں۔ ارے بدبختو!یہ تو عورت کا وہ حق ہے جو اسلام نے اسے دیا ہے تو تم کون ہوتے ہو اسے مارنے والے؟کیا تم زمانہ جاہلیت میں دوبارہ داخل ہو گئے ہو؟جہاں بیٹی کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جا تاتھا۔اور آج تم اسے نام نہاد غیرت کی بھینٹ چڑھا رہے ہو۔آج کے اس پڑھے لکھے معاشرے میں بھی عورت پر وہی ظلم جاری ہیں۔
کہیں جائیداد کے لالچ میں قرآن سے شادی کی جا رہی ہے تو کہیں ٥ سال کی بچی کو ونی کیا جا رہا ہے۔کہیں جائیداد کی بندر بانٹ میں بہن کو زہر دی جا رہی ہے تو کہیں پسند کی شادی پر قتل کیا جا رہا ہے ۔ کہیں بنتِ ہوا کی برہنہ ویڈیو بنا کر اس کی عزت تار تار کی جا رہی ہے تو کہیں عورت کو سرِ بازار نیلام کیا جا رہا ہے۔کہیں بیٹی پیدا ہونے پر قتل کیا جا رہا ہے تو کہیں بیٹی کو جنم دینے کی وجہ سے طلاق دی جا رہی ہے۔کہیں بانجھ کہ کر طلاق دی جا رہی ہے تو کہیں جہیز نہ لانے پر پٹرول چھڑک کر جلایا جا رہا ہے۔کہیں اپنی جنسی خواہشات کی بھینٹ چڑھائی جا رہی ہے ۔تو کہیںتیزاب پھینک کر عور ت کے نسوانی حسن کو برباد کیا جارہا ہے ۔کہیں دفتروں میں کام کرنے والیوں کی عزت داؤ پر ہے تو کہیں گلی کوچوں کے اوباشوں کی تنگ نظری کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں ۔کہیں چادر کھچی جارہی ہے تو کہیں چادر چاردیواری کا تقدس پامال کیا جارہا ہے ۔کہیں عورت کو پاؤںکی جوتی تو کہیں طلاق سے زیر کیا جارہا ہے ۔کہیں سوشل میڈیا پر ورکر خواتین کے چہرے کی ایڈیٹنگ کرکے عورت کا تقدس پامال کیا ۔تو کہیں 3سال کی بچی سے اجتماعی زیادتی کی جارہی ہے ۔اور یہ سفاک جنسی درندے انسانیت کو شرمندہ کررہے ہیں ۔عورت جائے توجائے کہاں ۔آخر کیوں بھول گئے آج کے مسلمان کہ اسلام نے عورت کو کیا رتبہ دیا۔
آج بھی عورت کو غلام اور باندی سمجھا جا رہا ہے ۔معاشرے کی دوڑ میں اگر عورت مرد کے شانہ بشانہ چلنا چاہتی ہے تو اسے آزاد خیال تصور کیا جاتا ہے ۔اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت بی بی خدیجہ ایک خاتون تاجر تھیں ۔اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلا نکاح ان ہی سے کیا ۔کیا عورت کا کام کرنا غلط ہے جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ تاجر تھیں تو کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کبھی تجارت سے منع فرمایا ہر گز نہیں ۔بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ کے ساتھ تجارت کیا کرتے تھے۔آج اگر ایک خاتون کا م کرنا چاہتی ہے تو اسکے راستے میں ہزاروں مسائل ہیں ۔مرد زدہ اس معاشرے میں عورت کو آج بھی پاؤں کی جوتی سمجھی جاتی ہے ۔جب دل چاہتا ہے طلاق دے کر فارغ کر دیا جاتا ہے ۔اور جب دل چاہتا ہے ۔حلا لہ جیسی نا پسندیدہ رسم کو اپنا کر دوبارہ نکاح پر زور دیا جاتاہے۔دونوں صورتوں میں قربانی عورت کو ہی دینی پڑتی ہے۔پہلے طلاق پھر حلالہ ۔عورت کی اس سے زیادہ تذلیل کیا ہوگی ۔مختلف لوگ مختلف قسم کے دلائل دیکر عورت کو گھر تک محدود رکھنا چاہتے ہیں ۔عورت ذات کو آج بھی انسان نہیں مانتے اسے ایک گھر میں قید رکھنے والی چیز سمجھتے ہیں ۔یا پھر جو عورت کا م کرتی ہے اسے غلط زاویے سے دیکھا جانا لوگوں کا وطیر ہ بن گیا۔
عورت کی جائیداد ہڑپ کرنے کے لیے مختلف قسم کے حیلے بہانے کیے جاتے ہیں۔اسے سالوں گھروں میں بٹھا رکھتے ہیں ۔توکہیں جہیز نہ ہونے سے ایک غریب کی بیٹی سے کوئی شادی نہیں کرتا ۔غرض یہ کہ آج کے اس مادی دور میں عورت بے پناہ قربانیا ں دے رہی ہے۔اپنے گھر کے لیے خاوند کے لیے بچوں کے لیے کام کرنے والی خاتون اپنا گھر سنبھالتی ہے۔بچے پالتی ہے اور خاوند کے نخرے بھی برداشت کرتی ہے ۔میں یہاں یہ کہنا چاہوں گی تما م مرد ایسے نہیں جو عورت کی عزت نہ کرتے ہوں لیکن یہ بھی سچ ہے زیادہ تر مر د عورت کو پائوں کی جوتی اور تسکین کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔اللہ پاک ہما ر احامی وناصر ہو۔آمین
تحریر: مشی ملک