تحریر: انیلہ شباب احمد
پیغمبر اسلام حضرت محمد ً کی بعثت َ مبارکہ سے پہلے تمام روئے زمین وحشت و بربریت ظلم و ستم اور فتنہ گری کی آماجگاہ بنی انسانیت کو تڑپا رہی تھی بشریت رو رہی تھی آدمیت کا جنازہ نکل چکا تھا ہر سو ہر سمت حیونیت و شیطانیت کا اندوہ ناک کھیل رچایا جا رہا تھا۔
خصوصا عرب ممالک میں امن وچین اطمینان و سکون اور راحت و سرور سے لوگ محروم ہو چکے تھے اس وقت کے انسانوں میں عورت کی ذلت و رسوائی اور مظلومیت کی داستانَ الم آج بھی پتھر دل انسان کو موم ہونے ہونے پر مجبور کر دیتی ہے ہر بلا و مصیبت کو عورت پر آزما کر ظلم کی انتہاء کی جاتی اپنی ہی بیٹی کو زندہ دفن کرنے میں کوئی عار یا گناہ نہ سمجھا جاتا تھا۔
شومئی قسمت کہ اگر کوئی بچ جاتی تو ظلم و ستم اور وحشت و درندگی کے دو پاٹوں کے مابین اپنی زندگی کو گھٹ گھٹ کر گزارنے پر لاچار ہوتی یا طوائف یا رقاصہ بنا کرعصمت فروشی پرمجبور کی جاتی آپً کی تشریف آوری سے خالقَ کائنات نے دنیا میں عورت کو مقام و رتبہ عطا فرمایا اور جن جن خوبیوں سے اور گوناگوں صفات سے نوازا ایک خوشگوار زندگی گزارنے کیلئے عورت اور مرد ایک حد مقرر کرکے جو ترجیحات دیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔
دورَ حاضر میں انہی ترجیہحات کو مغربی تمدن اور نئی تہذیب کا چولہ پہنا کر ہمارے نام نہاد گلے سڑے معاشرے نے اپنی خود ساختہ سوچ کی کسوٹی پر جس انداز سے عورت کا تماشہ بنایا اور اس نے اسلامی اقدار اور معاشرتی نظام کو بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ایک بار پھر زمانہ قدیم کی یاد تازہ کر دی ارشاد باری تعالیٍ عورتوں کے حقوق مردوں پر اسی طرح ہیں جس طرح عورتوں کے مردوں پر اور مردوں کو عورتوں کو فوقیت اور سبقت حاصل ہے میڈیا اور سوشل میڈیا پر نت نئی دل ہلا دینے والی خبریں اور مناظر ہر حساس آنکھ کو دکھ اور اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں عورت ماں بہن بیٹی بیوی جو ہر رشتے ہر روپ میں قابلَ احترام اور قابلَ عزت ہے جو اپنے گھر اپنے بچوں کیلئے تن من دھن کی بازی لگانے سے دریغ نہیں کرتی۔
آج کے وقت کی ستم ظریفی ایدھی ویلفئیر کی زینت بنی اپنوں کی بے حسی سفاکی کا منہ بولتا ثبوت ہے دیکھا جائے تو آج بھی عورت 1400 سال پہلے والے دور سے بھی بد ترین حال میں بے سرو سامانی کی حالت میں نظر آتی ہے جو جوان اولاد کے ہوتے ہوئے اولڈ ہوم میں اپنی زندگی کے بقایا شب و روز گزارنے پر مجبور ہے بہنیں جو بھائیوں کیلئے باعث عزت سمجھی جاتی ہیں کسی نہ کسی بہانے ان کی کردار کشی کا ڈرامہ رچا کر ان کو کارو کاری کیا جاتا ہے تا کہ ان کے حصے کی دولت کو اپنے لئے جائز کیا جائے عرصہ دراز سے جاری اس المناک کھیل کو جانتے ہوئے بھی ان مظلوم عورتوں کی داد رسی کیلئے کوئی تیار نہیں۔
اپنی ہی کوئی ادھوری خواہش جس کی تکمیل نہ ہو سکی ہو اپنی جھوٹی انا کی تسکین کیلئے اپنی عزیز بیٹی کو کسی ایسے شخص کے ہاتھ سونپ دینا جو بیٹی کے ذہنی معیار کے مطابق نہ ہو تو سوچیں کہ لمحہ لمحہ کڑہتی اس بیٹی کی زندگی کا سوچ کا معیار کیا ہوگا ‘ اپنی خواہشات کو کچل کروہی بیٹی والدین کی عزت کا بھرم رکھنے پر کیسے مجبور ہو جاتی ہو ظلم کی چکی میں پسی مر جائے گی مگر حرف شکایت زبان، پر نہیں لائے گی عجب بے بسی ہے کہ عورت کا اسلامی معاشرے میں جو مقام بڑی جدو جہد کے بعد متعین کیا گیا تھا کیا آج کی عورت اس وقت اسی مقام پر فائز ہے؟ یا آج کی عورت کو زمانہ جاہلیت کی طرح پھر سے اسے بوجھ یا ذلت کا عنوان بنا دیا گیا۔
ہمارے معاشرے کی سلگتی سسکتی حقیتیں ہمارے مُردہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی نہیں؟ یا نجانے ہم کس وقت کے انتظار میں یہ منظر دیکھنے میں محو ہیں ایدھی ویلفئیر جیسے نجانے کتنے ادارے اسی سفاکی کا منہ بولتا ثبوت ہے وہاں موجود کثیر تعداد میں عمر رسیدہ خواتین کو دیکھ کر انسانیت بھی شرما جائے ہم ان پر بیتے دکھوں اور اذیتوں کا مداوا تو نہیں بن سکتے لیکن ان کی ممکنہ حد تک مالی امداد کر کے سکون حاڈل ضرور کر سکتے ہیں کہ شائد ہمارا رب ہماری یہ چھوٹی سی خدمت اس کا اخلاص قبول کر کے روزَ محشر ہمارے عذاب میں تخفیف فرما دے۔ آمین۔
تحریر: انیلہ شباب احمد