تحریر : شاہ بانو میر
جب اللہ نے سورت کھف آیت 17 میں کہہ دیا جسے اللہ چاہے ہدایت دے دے اور جسے نہ دے تو اس کے لئے تم کوئی ولی و مرشد نہیں پاؤگے قرآن پاک میں بار بار اللہ پاک فرماتے ہیں کہ دیکھو راہ راست اختیار کر لو تمہارا رب بڑا رحیم بڑا کریم بڑا غفورو رحیم ہے اتنا خوبصورت کلام کبھی کھول کر اپنے رب کی رحمت کے وسعت کے اعلیٰ ظرفی کے پیمانے تو ناپیں٬ آپ کسی بھی انسان سے کوئی غلطی سرزد ہونے پر اس کی دی گئی قربانیوں کوکیسے فراموش کر سکتے ہیں؟
17 سال سے ایک انسان دنیا کے آرام و آسائش چھوڑ کر اپنے نفس کی ہجرت کر کے دین اسلام کو نفس کا اوڑھنا بچھونا بناتا ہے کیونکہ خوش نصیبی سے اس کاللہ ربّ العزت نےاپنی ہدایت عطا کر دی
لیکن دوسری طرف ہمارا عمل یہ ہے کہ ہم نے ہر اچھے دماغ کو ہر اچھے انسان کو ہر اچھی مثبت سوچ کو پھانسی دینے کا قتل کرنے کا سنگسار کرنے کا بہیمانہ ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے٬، کیا ہم جانتے ہیں کہ آپ کی عمر بھر کی ریاضت لمحہ بھر کی حماقت سے زائل ہو سکتی ہے٬ کس نے ہمیں یہ حق دیا کہ ہم کسی مذہبی غلطی پر اللہ کے انصاف کی بجائے اپنا فیصلہ صادر کریں؟ اللہ کے انصاف کا بہت الگ پیمانہ ہے ناپ تول یہاں کی طرح نہیں ہے اس اعلیٰ پاک ذات کی اپنی ہی صفات اور اپنی ہی اجارہ داری ہےـ
چاہے تو کتے کو پانی پلانے کے عوض جسم فروش عورت کے عمر بھر کے گناہ معاف کر کے جنت عطا کر دے اور چاہے تو محض غرور تکبر میں منہ سے نکالی ہوئی ایک بات پے آپ کی ساری عمر کی ریزگاری کو اٹھا کر دریا بُرد کر دے ٬ ایسی آزمائشوں میں گھِرے ہوئے انسان کو دلاسہ دے کر اسے اللہ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیں تا کہ اسلام کا اعلیٰ معیار قائم ہو ٬ ہماری استاذہ جی اکثر فرماتی ہیں کہ اگر انہیں موقعہ دیا جائے کہ دین کو پھیلانے کے لئے کن افراد کا چناؤ کریں گی تو ان کا فرمانا ہے کہ وہ پڑھے لکھے اچھے ذہن کے حامل افراد کو چُنیں گی کیونکہ یہ دین کو زیادہ مؤثر اور طاقتور انداز میں بہت سے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں٬
ایک آیت کا متن کچھ یوں بھی ہے کہ وہ لوگ جو دنیا کو پسند کرتے ہیں ہم ان کے لئے مزید خوشنما بنا دیتے پیں جنید جمشید نے دنیا کو ٹھوکر مار کر اپنے ربّ کی خوشنودی کی خاطر دین سے قربت حاصل کی ہم سب آج ایک خطا پے اسکو نجانے کس جگہہ لا کھڑا کر رہے ہیں خُدارا یاد کیجیۓ برصغیر پاک و ہند میں بزرگانِ دین کا آنا ان کی مزاج کی نرمی ان کی خلقِ خُدا سے محبت وہاں ذات پات کے ستائے ہوئے شودر جب ان کے ہمراہ برابری کی سطح پے بیٹھتے تو انہیں احساس ہوتا کہ وہ بھی انسان ہیں
بزرگانِ دین کے اسی طرزِ عمل کی وجہ سے اسلام نے نمو حاصل کی وہ غیر مسلموں پے شفقت فرما کر ان کی غلطیاں نظر انداز کر کے اللہ کا پیغام پھیلاتے رہے اور آپ سب یہاں اپنے ایک مسلمان بھائی کو خلعت عطا کرنے کی بجائے ظالمانہ الفاظ سے نواز رہے٬ آنکھوں سے گرتے آنسو لہجے کی شرمساری نجانے اس کو مزید کتنا اللہ کے قریب کر دے اور آپ سب کو نجانے کتنا دور کیونکہ یہی امہات المومنین میں سے بی بی عائشہ ہیں جن کا ذکر قرآن پاک میں کیا گیا ہے جب ان پر غلط الزام لگایا گیا تھا اس الزام کی تردید اللہ پاک نے بزریعہ وحی کی ٬ ان پر تہمت لگانے والا اور بڑھا چڑھا کر بیان کر کے دنیا میں پھیلانے والا شخص حضرت ابو بکر کا ایک غریب رشتےدار تھا ـ جب ابو بکر صدیق کو علم ہوا کہ اس نے یہ تہمت لگائی ہے تو غصے میں اس کا ماہانہ وظیفہ بند کرنے کا تہیہ کیا ٬ اللہ پاک نے ان کے اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا ٬ اور انہوں نے دوبارہ وظیفہ بحال کر دیاـ
سوچئے کیا ایک باپ سے زیادہ آپ ہمدرد ہیں؟ ذرا ملاحذہ کریں کہ بات بی بی عائشہ کی پاکدامنی پے داغ کی ہے جسے سن کر ایک باپ غیرت میں آکر فیصلہ کرتا ہے دوسری جانب اللہ رب العزت کو ناگوار گزرتا ہے کہ تم ایک انسان کی کوتاہی کی سزا اس کا روزگار بند کر کے دو گے؟ یہ ہے سیکھنے والی بات معاف کرنا سیکھیں معاشرے میں عدم توازن پہلے ہی بہت ہے اس کو متناسب طریقہ کار سے توازن میں لائیے
دعا کرتے ہیں کہ ہماری بربادیوں کی داستان یہیں تھم جائے اور یہ قوم قرآن پاک کو کھول کر پڑھنا سمجھنا شروع کر دے تو یہ جارحانہ عزائم یہ خوفناک مذہبی انتہاء پسندی کا رویہ ختم ہوـ وہی انداز اپنایا جائے کہ طائف والے میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لہو لہان کر دیتے ہیں سارا شہر اذیت دینے پےے تُلا ہوا ہے اور آپ ایک باغ میں استراحت فرماتے ہیں تو ایک رشتے دار جو آپکو پہچان لیتا ہے دکھ سے آپ کا حال دیکھ کر انگوروں کا ایک خوشہ توڑ کر غلام کے ہاتھ آپکو بھجواتا ہے اور آپ اس غلام سے ملائمت سے بات کرتے ہیںـ
جب اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مصر سے ہےـ توفرماتے ہیں کہ وہ تو ہمارے نبی ساتھی حضرت یوسف علیہ سلام کا ملک ہےـ غلام متعجب ہوتا ہے کہ آپ کیسے جانتے حضرت یوسف علیہ سلام کو،؟ جواب میں آپ فرماتے کہ اللہ پاک نے مجھے بزریعہ وحی بتایا تو یہ سن کر اس ظالم شہر میں سے وہ ایک غلام ایمان لے آتا ہے آپکو جبرائیل امین نے کہا کہ حکم کیجیۓ اس شہر کے باسیوں کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں ٬ فرمایا نہیں میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں زحمت نہیں٬ کیوں بھول گئے آپ سب یہ اسباق؟ محبت کے نرمی کے اخوّت کے باہمی بھائئ چارے کے؟
غلطیوں کا حساب لینے والا یاحی یا قیوم ہے آپ میں سے کسی کو فکر نہیں ہونی چاہیے انشاءاللہ وہ جنید جمشید کےبہتے ہوئۓآنسوؤں کے ساتھ مانگی ہوئی توبہ قبول کر چکا ہوگا وہ تو ہے ہی غفورو رحیم اللہ اوراس کے بندوں کے معاملات کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے آئیے خود کی فکر کریں اور اللہ پاک کے حضور عاجزی سے سر جھکائے آج تک ابھی تک جو غلط افعال جانے انجانے میں ہوئے صِدقِ دل سے ان پر اظہارِ شرمساری کرتے ہوئے توبہ کریں اور پیارے رحمان رحیم اللہ کو منا کر اپنے لئے دین و دنیا میں کشادگی اور آسانی پیدا کر لیں (اللہ پاک کوئی غلطی کوتاہی ہو گئی ہو تو معافی کی طلبگار ہوں صرف تجھ سے معاف کر دینا میرے پیارے اللہ جی آمین )