تحریر : زینب ندیم ملک
عورت بہت عظیم مخلوق ہے چاہے وہ بیٹی کے روپ میں ہو چاہے ماں کے چاہے بیوی کے یا چاہے بہو کے روپ میں ہو ہر روپ اس کا قابل احترام ہوتا ہے ہر روپ میں خوبصورتی اور نزاکت ہوتی ہے ہر روپ عزت چاہتا ہے ہر روپ اپنی الگ پہچان رکہتا ہے ـماں اپنے وجود سے ایک نومولود کو جنم دیتی ہے اگر اولاد بیٹی ہوتی ?ے تو اسے رحمت جانا جاتا ہے کچھ لوگ ایسے ہیں جو بیٹی ذات کو منحوس مانتے ہیں اور بیٹے کو بیٹی پر ترجیح دیتے ہیں ـاس بناء پر بیٹیاں معاشرے میں خود کو نچلی سطح پر محسوس کرتی ہیں وہ اس طرح سر اٹھا کر نہیں متحرک ہو پاتی جتنا بیٹے ہوتے ہیں اور اگر بیٹی کو اپنے گھر وہ عزت مل جاتی ہے تو بہت سے گھرانے ایسے ہیں جہاں بیٹی کو بیاہا جائے تو اسے وہ مقام نہیں مل پاتا جس کی وہ حقدار ہے۔
ایسے مرد عورت کو کم تر اور خود کو اعلی سمجھتے ہیں ـوہ عورت کو کولہو کے بیل کی مانند گراندتے ہیں ان کیلئے عورت ذات کا کرب کوئی معنی نہیں رکھتاـآج بھی ہمارے معاشرے میں عورت پر ظلم و ستم ہوتا آرہا ہے اس پر تشدد کیا جاتا ہے مرد خود کو حاکم سمجھتا ہے۔ایک جابر حکمران بن کر اس پر ظلم ڈھاتاہے اور اگر عورت اپنے حق کیلئے آوازاٹھاتی ہے تو اسے طعنے دیئے جاتے ہیں کہ اس کے والدین نے اس کی تربیت ہی بری کی تھی اپنے شوہر کے سامنے آواز اٹھاتی ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں سب جانتے ہیں کہ لڑکی کے نصیب سے کتنا ڈر لگتا ہے ـبیٹی جوں جوں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے والدین کی فکر بڑھتی جاتی ہے اسے پڑھانے کی فکر ،معاشرے کے بھیڑیوں کی گندی نظر کی فکر،بڑے ہوجانے پر شادی کی فکر اور شادی ہو جانے پر ان کے اگلے گھر اچھی زندگی گزارنے کی فکر ،آج کل تو والدین کو بیٹی کی شادی کے بعد ان کے گھر بھی خود بسانے پڑتے زمانہ جاہلیت میں عورت کا مقام کیا تھا۔
ازدواجی زندگی کے عنوان پر بات کرتے ہوئے اس پس منظر کو ذہن میں رکھنا ضروری ہوگا کہ اسلام سے پہلے دنیا کی مختلف تہذیبوں اور مختلف معاشروں میں عورت کو کیا مقام حاصل تھا؟ تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اسلام سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک میں عورت اپنے بنیادی حقوق سے بالکل محروم تھی: فرانس میں عورت کے بارے میں یہ تصور تھا کہ یہ آدھا انسان ہے اس لئے معاشرے کی تمام خرابیوں کا ذریعہ بنتی ہےـ چین میں عورت کے بارے میں یہ تصور تھا کہ اس میں شیطانی روح ہوتی ہے لہذا یہ برائیوں کی طرف انسان کو دعوت دیتی ہےـجاپان میں عورت کے بارے میں یہ تصور تھا کہ یہ ناپاک پیدا کی گئی ہے، اس لئے عبادت گاہوں سے اس کو دور رکھا جاتا ہےـہندوازم میں جس عورت کا خاوند مرجاتا تھا اس کو معاشرے میں زندہ رہنے کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھاـ اس لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے خاوند کی لعش کیساتھ زندہ جل کر اپنے آپ کو ختم کرلے، اگر وہ اس طرح نہ کرتی تو اس کو معاشرہ میں عزت کی نگاح سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔
عیسائی دنیا میں عورت کو معرفت الہی کے راستے میں رکاوٹ سمجھا جاتا تھاـ عورتوں کو تعلیم دی جاتی تھی کہ کنواری رہ کر زندگی گزاریںـ جبکہ مرد راہب بن کر رہنا اعزاز سمجھتے تھےـجزیرہ عرب میں بیٹی کا پیدا ہونا عار سمجھا جاتا تھاـ لہذا ماں باپ خود اپنے ہاتھوں سے بیٹی کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھےـ عورت کے حقوق اس قدر پامال کئے جاچکے تھے کہ اگر کوئی آدمی مرجاتا تو جسطرح وراثت کی چیزیں اس کی اولاد میں تقسیم ہوتی تھیں اسی طرح بیوی بھی اس کی اولاد کے نکاح میں آجاتی تھیـاگر کسی عورت کا خاوند فوت ہوجاتا تو مکہ مکرمہ سے باہر ایک کالی کوٹھڑی میں اس عورت کو دو سال کیلئے رکھا جاتا تھا طہارت کیلئے پانی اور دوسری ضروریات زندگی بھی پوری نہ دی جاتی تھی۔
اگر دو سال یہ جتن کاٹ کر بھی عورت زندہ رہتی تو اس کا منہ کالا کرکے مکہ مکرمہ میں پھرایا جاتاـ اس کے بعد اسے گھر میں رہنے کی اجازت دی جاتی تھیـاب سوچیے تو سہی کہ خاوند مرا تو مرا اپنی قضاء سے، بھلا اس میں بیوی کا کیا قصور؟مگر یہ مظلوم اتنی بیبس تھی کہ اپنے حق میں کوئی آواز ہی نہیں اٹھا سکتی تھیـ ایسے ماحول میں جبکہ چاروں طرف عورت کے حقوق کو پامال کیا جارہا تھا اللہ تعالی نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسلام کی نعمت دے کر بیجھاـ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آکر عورت کے مقام کو نکھاراـ بتلایا کہ اے لوگو! اگر یہ بیٹی ہے تو تمہاری عزت ہے، اگر بہن ہے تو تمہاری ناموس ہے، اگر بیوی ہے تو زندگی کی ساتھی ہے، اگر ماں ہے تو اس کے قدموس میں تمہاری جنت ہے۔
ہمارا معاشرہ آج پڑھا لکھا ہونے کے باوجود ظالم اور جاہل بنتا جارہاہے ،پڑھے لکھے ہونے کے باوجود اس کے لہجے سے جہالت ٹپکتی ھے ـضرورت ہے تو مرد کو یہ جاننے کی کہ عورت کا بھی وہی مقام ہے جو اس کا مقام ہے نا کہ عورت کو یہ کہ کر چپ کرانے کی کہ صرف مرد کے پاس ہی اختیار ہے اسے تین الفاظ سے چپ کرانے کا مرد جانتا ہے یہ وہی دھمکی ہے جو کسی بھی عورت کو سرخم تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہےـ عورت کا احترام کیجیئے اس کو وہ تمام حقوق دیجئے جن کی وہ حق دار ہے ہر عورت اپنے والدین کی اتنی ہی لاڈلی ہوتی ہے جتنی آپ کی اپنی بہن ماں اور بیٹی آپ کیلئے ہوتی ہے۔عورت کی ہر جائز خواہش کو پورا کریں ،خواہشات ہر ذی روح کی ہوتی ہیں اسی طرح ایک عورت کی بھی انگنت خواہشات ہوتی ہیں جنہیں ان کا شوہر پورا کر سکتا ہے۔
ایک عورت اپنی زندگی میں ایک ایسا ہمسفر چاہتی ہے جو اسے پیار دے جو اس کا مان ہو جس سے وہ اپنے دل.کی ہر بات کرسکے اگر ایک شوہر ہی ہر وقت رعب جاڑتا رہے گا حکم چلاتا.رہے گا تو ایک عورت اپنے ہمسفر کو اس قابل سمجھ سکے گی جس سے وہ اپنا ہر دکھ بیان کر سکے بیوی کو اپنے اعتماد میں لیں اور اگر بیٹی ہے تو والدین کو چاہئیے کہ وہ اس کے دوست بن کر رہیں تاکہ وہ اپنی زندگی آپ کیساتھ شیئر کرسکے ـبہت سی لڑکیاں اپنی زندگی کے برے واقعات والدین سے شیئر نہیں کر پاتی کیونکہ والدین کا ماحول دوستانہ نہیں ہوتا بیٹی کو اپنے اعتماد میں لیں تاکہ وہ ہر بات شیئر کرسکے۔
عورت کو لاچار نا سمجھیں عورت کی طاقت مرد سے کئیں گنا ذیادہ ہوتی ہے ،عورت کو زمانہ مظلوم اور سخت بنا دیتا ہے اپنے حق کیلئے آواز اٹنائے تو اسے غلط کہا جاتا ہے ـہمارے معاشرے کے رواج عادات و اطوار بدلتے جارہے ہیں ضرورت ہے تو پڑھا لکھا ہونے کیساتھ اچھی سیرت کے ہونے کا بھی ۔عورت اپنے والدین کا گھر باڑ چھوڑ کر آتی ہے اسے احترام دیجئے اس کی قدر کیجئے اسے اہم گردانئیے تاکہ معاشرے میں اچھی سوچ اور مقام پیدا ہوسکے۔
تحریر : زینب ندیم ملک